روزہ کے اصل مقاصد......

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

روزہ کے اصل مقاصد......


جھوٹ سے بچنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے روزے کے اصل مقصد کی طرف توجہ دلائی ہے اور یہ سمجھایا ہے کہ مقصد سے غافل ہوکر بھوکا پیاسا رہنا کچھ مفید نہیں۔ چنانچہ فرمایا: ’’جس کسی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا ہی نہ چھوڑا تو اس کا کھانا اور پانی چھڑا دینے کی اللہ کو کوئی حاجت نہیں۔‘‘

دوسری حدیث میں ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا اُن کے پلے کچھ نہیں پڑتا، اور بہت سے راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں کہ اس قیام سے رت جگے کے سوا اُن کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔‘‘

ان دونوں حدیثوں کا مطلب بالکل صاف ہے۔ ان سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ محض بھوکا اور پیاسا رہنا عبادت نہیں ہے بلکہ اصل عبادت کا ذریعہ ہے، اور اصل عبادت ہے خوفِ خدا کی وجہ سے خدا کے قانون کی خلاف ورزی نہ کرنا، اور محبتِ الٰہی کی بنا پر ہر اُس کام کے لیے شوق سے لپکنا جس میں محبوب کی خوشنودی ہو، اور نفسانیت سے بچنا، جہاں تک بھی ممکن ہو۔ اس عبادت سے جو شخص غافل رہا اس نے خواہ مخواہ اپنے پیٹ کو بھوک پیاس کی تکلیف دی۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت کب تھی کہ بارہ چودہ گھنٹے کے لیے اس سے کھانا پینا چھڑا دیتا؟
 ۔ ایمان و احتساب: روزے کے اصل مقصد کی طرف سرکار صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح توجہ دلاتے ہیں کہ: ’’جس نے روزہ رکھا ایمان اور احتساب کے ساتھ، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے گئے۔‘‘

ایمان کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے متعلق ایک مسلمان کا جو عقیدہ ہونا چاہیے وہ عقیدہ ذہن میں پوری طرح تازہ رہے، اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ ہی کی رضا کا طالب ہو اور ہر وقت اپنے خیالات اور اپنے اعمال پر نظر رکھے کہ کہیں وہ اللہ کی رضا کے خلاف تو نہیں چل رہا ہے۔ ان دونوں چیزوں کے ساتھ جو شخص رمضان کے پورے روزے رکھ لے گا وہ اپنے پچھلے گناہ بخشوا لے جائے گا، اس لیے کہ اگر وہ کبھی سرکش و نافرمان بندہ تھا بھی، تو اب اس نے اپنے مالک کی طرف پوری طرح رجوع کرلیا، اور التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ (گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ تھا)۔

گناہوں سے بچنے کی ڈھال: دوسری حدیث میں آیا ہے: ’’روزے ڈھال کی طرح ہیں (جس طرح ڈھال دشمن کے وار سے بچنے کے لیے ہے اسی طرح روزہ بھی شیطان کے وار سے بچنے کے لیے ہے)۔ لہٰذا جب کوئی شخص روزے سے ہو تو اسے چاہیے کہ (اس ڈھال کو استعمال کرے اور) دنگے فساد سے پرہیز کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا اس سے لڑے تو اس کو کہہ دینا چاہیے کہ بھائی میں روزے سے ہوں (مجھ سے یہ توقع نہ رکھو کہ تمہارے اس مشغلے میں حصہ لوں گا)۔‘‘
نیکی کی حرص: دوسری احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ روزے کی حالت میں آدمی کو زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چاہئیں اور ہر بھلائی کا شوقین بن جانا چاہیے۔ خصوصاً اس حالت میں اس کے اندر اپنے دوسرے بھائیوں کی ہمدردی کا جذبہ تو پوری شدت کے ساتھ پیدا ہوجانا چاہیے، کیونکہ وہ خود بھوک پیاس کی تکلیف میں مبتلا ہوکر زیادہ اچھی طرح محسوس کرسکتا ہے کہ دوسرے بندگانِ خدا پر غریبی اور مصیبت میں کیا گزرتی ہوگی۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ خود سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں عام دنوں سے زیادہ رحیم اور شفیق ہوجاتے تھے۔ کوئی سائل اس زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے سے خالی نہ جاتا تھا، اور کوئی قیدی اس زمانے میں قید نہ رہتا تھا۔
افطار کرانے کا ثواب: ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو یہ اس کے گناہوں کی بخشش کا اور اس کی گردن کو آگ سے چھڑانے کا ذریعہ ہوگا اور اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس روزہ دار کو روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی ہو۔‘‘

Post a Comment

0 Comments