سورۃ الفاتحہ کی تفسیر

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

سورۃ الفاتحہ کی تفسیر

قرآن مجید ’’بسم اللہ‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے کفار کو رد ہے۔ وہ ہر کام ’’باسم للات والعُزی‘‘ (بتوں کے نام) سے شروع کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر کام کی ابتدا اللّٰھم سے فرماتے تھے، پھر جب بسم اللہ نازل ہوئی تو ہر کام کے شروع میں یہ پڑھتے تھے۔ ’’بسم اللہ‘‘ کے تینوں اسماء اللہ، رحمن، رحیم‘‘ سورہ فاتحہ میں بھی آتے ہیں۔ بسم اللہ ’’ب‘‘ سے شروع ہوتی ہے، ’’ب‘‘ کا وجود نقطے سے قائم ہے، نقطہ ناقابلِ تقسیم ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی وحدتِ حقیقی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس پر مجسمیوں کو رد ہے جو اللہ تعالیٰ کو مان کر پھر جسمانی وجود (طول، عرض اور عمیق) کے قائل بنے ہیں۔ 

باری تعالیٰ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے اور اپنے متعلق ہر کسی کو حیرت میں ڈالنے والی ذات کا نام ہے۔ اسی کے بابرکت نام سے ابتدا کی گئی جس کی صفت رحمت ہے (کائنات کے ہر فرد پر رحمت کرنے والا)۔ اسے کوئی مانے یا نہ مانے، وہ کفار اور مومنوں پر رحم کرنے والا ہے۔ ’’الرحیم‘‘ فرماں برداروں پر آخرت میں رحم کرنے والا۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ قرآن مجید کا مطلق جزو اور مستقل آیت ہے، اور ہر سورت کی ابتدا میں برکت کے لیے لکھا ہوتا ہے، اور سورہ کا جزو نہیں ہے۔ باقی سورہ ’’النمل‘‘ میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط میں شامل ہے۔ وہاں ’’سورہ النمل‘‘ کا جزو ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سورہ الکوثر‘‘ تین آیات ہیں اور ’’سورہ الملک‘‘ 30 آیات ہیں۔ یہ بسم اللہ کے سوا عدد بتایا گیا ہے، ورنہ تو چار اور اکتیس آیات ہوں گی۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین سے نماز میں قرأۃ الفاتحہ ’’بسم اللہ‘‘ کے سوا سننا ثابت ہے، اور بسم اللہ بلا آواز پڑھتے تھے (مؤطا امام مالک۔ ج اول۔ ص 192)۔ مطب ہے کہ یہ اصحاب کرام بسم اللہ کو فاتحہ کا حصہ نہیں سمجھتے تھے اور نماز الحمدللہ سے شروع کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے درمیان نماز آدھی آدھی تقسیم کی ہے۔ بندہ کہتا ہے ’’الحمد للہ رب العٰلمین‘‘ اللہ تعالیٰ جواب میں فرماتا ہے ’’حمدنی عبدی‘‘ (بندے نے میری تعریف کی)۔ بندہ کہتا ہے ’’الرحمن الرحیم‘‘۔ رب فرماتا ہے ’’اثنیٰ علیٰ عبدی‘‘ (میرے بندے نے میری ثنا بیان کی ہے)۔ اور جب وہ پڑھتا ہے ’’مالک یوم الدین‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’مجدنی عبدی‘‘ (میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے) اور بندہ پڑھتا ہے ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ میرے اور بندے کے درمیان مشترکہ ہے۔ اور جب پڑھتا ہے ’’اھدنا الصراط المستقیم ‘‘ اور ’’صراط الذین انعمت علیہم‘‘ اور ’’غیر المغضوب علیہم ولا الضالین‘‘ یہ بندے کے لیے ہیں۔ بندے نے جو مانگا وہ اسے دیا (جامع ترمذی۔ ج 2۔ ص نمبر 140)۔ ایاک نعبد الخ سے تین آیات پہلے اللہ کے لیے اور ایاک نعبد الخ سے تین آیات بعد والی بندے کے لیے ہیں۔ ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ مالک اور بندے کے درمیان میں ہے۔ یہ سات آیات سبع مثانی ہیں۔ یہاں معلوم ہوا کہ ’’بسم اللہ‘‘ ان سات آیات میں نہیں ہے اور فاتحہ میں الگ سات آیات۔
’’بسم اللہ‘‘ (اول میں) برکت کے لیے ہے اور ’’آمین‘‘ (آخر میں) قبولیت کے لیے دعا ہے۔ اور یہ قرآن مجید کا لفظ نہیں ہے، اس لیے اسے کتابت یا قرأت میں خاطر خواہ جگہ نہیں ملی ہے۔ قرآن مجید کو بسم اللہ سے شروع کرنے سے ہدایت ملتی ہے کہ ہر کام کو بسم اللہ سے شروع کیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر جائز کام اللہ کے نام کے سوا شروع کیا جائے تو وہ برکت سے کٹا ہوا ہوگا۔‘‘ اس لیے سب کام ’’بسم اللہ‘‘ سے شروع کیے جائیں۔ اسلام میں یہ ہدایت انسانی زندگی کو ہر طرف سے ہٹاکر اسے خالقِ حقیقی کی جانب لے جاتی ہے۔ یہ تمام عمل چھوٹا ہے مگر اس میں وفاداری کا بڑا ثبوت ہے۔ یہاں مومن اور کافر کا پتا لگتا ہے۔ شکر گزار اور ناشکرے میں امتیاز ہوتا ہے۔
آدمی ایک لقمہ کھاتا ہے، اس کی تیاری میں ساری کائنات اپنے مالکِ حقیقی کے حکم سے متحرک ہوجاتی ہے۔ ہوا، آگ، پانی اور مٹی وقت پر اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ سورج، چاند اور ستارے روشنی کی کرنیں بھیج کر خدمت کرتے ہیں۔ یہاں لوہے اور لکڑی پر کاریگر فنی مظاہرے کرتے ہیں۔ کیڑے مکوڑے پودوںکو ابھرنے کے لیے طاقتیں جمع کرکے قدم بوسی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے ایسے بے شمار بندوبست دیکھ کر بندے کی طبع میں اپنے مالک کی تعریف کے جذبات ابھرتے ہیں۔ پھر یہ اُس کی حمد کے لیے طبعی طور پر تیار ہوتا ہے۔ لیکن کیا کرے؟ اللہ تعالیٰ اس کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اپنے کلام پاک میں اس کو ’’الحمدللہ‘‘ کا لفظ پڑھ کر اپنی حمد سناتا ہے اور اسی طرح اس کے جذبات کو پورا کرتا ہے۔ یہ سب اُس پروردگارِ حقیقی کے حکم اور نگاہ سے ہے۔ لہٰذا اس کا نام لینا لازمی ہوا۔ بس اتنی رحمتوں کا اقرار ’’بسم اللہ‘‘ کے پڑھنے سے حاصل ہوگا۔
مطلب یہ کہ ’’بسم اللہ‘‘ کی برکت سے دنیا کے تمام شروع کردہ کام اور انسانی معاشی ضرورتیں اللہ تعالیٰ کی عبادات میں داخل ہوتی ہیں۔ انسان اپنے قول سے یہ گواہی دیتا ہے کہ بے شک ان سب اشیاء سے فوائد کا حصول اس کے بس کی بات نہیں ہے، بلکہ سب کچھ رب تعالیٰ کے اسم مبارک کی برکت کی وجہ سے ہے۔
امام العصر حضرت عبدالکریم قریشی
ترجمہ: خالد محمد مہر

Tafseer of Surah Fatiha

Post a Comment

0 Comments