tag:blogger.com,1999:blog-32609237445548050052024-03-20T00:25:32.932-07:00Towards IslamSite is related to Islam, Quran, Hadtih, Sunnah, Islamic Knowledge and Islamic Information.KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.comBlogger1738125tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-33574784044052159842024-02-07T04:22:00.000-08:002024-02-07T04:22:02.594-08:00مسجد الحرام میں بجلی کے مثالی انتظامات<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhjnoLwCOL1QTgF3z5T099z9yonB-X4cxM08mxthRltRxgUQTrOYWKgR11ZV9RTyeTfLZMvXGaZs72H4Of2XvytcnKXwKBMrfXjb_4-T5JO5rzs11tB5QONjYEpGazZNR36c_vtmgL0Y0AEM40e1uie_nZkGgZT5NjDYHphevUPqy_ApWraRupBDAEP2dM/s3200/Masjid%20Al%20Haram%20Electricity%20System%202.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2400" data-original-width="3200" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhjnoLwCOL1QTgF3z5T099z9yonB-X4cxM08mxthRltRxgUQTrOYWKgR11ZV9RTyeTfLZMvXGaZs72H4Of2XvytcnKXwKBMrfXjb_4-T5JO5rzs11tB5QONjYEpGazZNR36c_vtmgL0Y0AEM40e1uie_nZkGgZT5NjDYHphevUPqy_ApWraRupBDAEP2dM/w400-h300/Masjid%20Al%20Haram%20Electricity%20System%202.jpg" width="400" /></a></div>ادارہ امور حرمین شریفین کا کہنا ہے کہ مسجد الحرام میں بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے جملہ وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ عاجل نیوز کے مطابق حرم مکی الشریف میں بجلی کی فراہمی کے حوالے سے ادارہ امور حرمین شریفین کا کہنا تھا کہ مسجد الحرام میں مختلف آلات اور لائٹوں وغیرہ کو مسلسل رواں رکھنے کے لیے متعدد پاوراسٹیشنز کام کرتے ہیں جن کی یومیہ بنیاد پر دیکھ بھال کی جاتی ہے ادارے کا مزید کہنا تھا کہ مسجد الحرام کی تیسری توسیع کے دوران 12 مرکزی اور ذیلی پاور ہاؤسز کی سہولت مہیا کی گئی ہے۔ مسجد الحرام میں بجلی کے ڈھائی لاکھ آلات جن میں برقی سیڑھیاں (ایسکیلیٹرز)، لفٹیں اور کولنگ سسٹم شامل ہیں کے لیے پاور جینریٹرز کا خصوصی انتظام ہے جو کسی بھی ہنگامی ضرورت پر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ادارہ امور حرمین کا مزید کہنا تھا کہ مسجد الحرام کے مختلف مقامات پر بجلی کی مستقل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے 15 یو پی ایس بھی نصب کیے گئے ہیں ۔ واضح رہے مسجد الحرام میں باقاعدہ طورپر بجلی کی فراہمی 1373ھ مطابق 1953 میں شاہ عبدالعزیز کی جانب سے کی گئی تھی جس کی مدد سے ساڑھے سات لاکھ مربع میٹر کے رقبے پرروشنی کا انتطام کیا گیا تھا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ اردو نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-49296166843578088772024-02-06T00:33:00.000-08:002024-02-06T00:33:25.392-08:00فہم و فراست، تدبّر و تفکّر کی فضیلت<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhOB5xmbqkTkWCrV0YRK1xV8s9MYbkP4dzu3Kudot_5KkhZlHJ6CdDJOYZVc__EEcCy1uC8AB6F-eLFydChT5F9rAQ9Eakuv3JU_OYvIsbV-fAxtLy0DY-2iOX8NmX0HOPBzzzOgU47EhpMZhuVwRW8IY_OGxJHye4j2RRRTAYC01ZcC8qTCzYmCpDbjkg/s4737/Islam%205.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3361" data-original-width="4737" height="284" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhOB5xmbqkTkWCrV0YRK1xV8s9MYbkP4dzu3Kudot_5KkhZlHJ6CdDJOYZVc__EEcCy1uC8AB6F-eLFydChT5F9rAQ9Eakuv3JU_OYvIsbV-fAxtLy0DY-2iOX8NmX0HOPBzzzOgU47EhpMZhuVwRW8IY_OGxJHye4j2RRRTAYC01ZcC8qTCzYmCpDbjkg/w400-h284/Islam%205.jpg" width="400" /></a></div>خدائے برتر نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا اور پوری کائنات کو محض اسی کے لیے پیدا فرمایا۔ اسی انسان کے اندر ظلمت و نور، خیر و شر، نیکی اور بدی جیسی ایک دوسرے کی مخالف صفات بھی پیدا فرما دیں، اب اگر انسان چاہے تو ان متضاد صفات کے ذریعے تمام مخلوق سے افضل اور برتر ہو سکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو تمام تر پستیوں سے بھی گزر جائے۔ اگر خدا کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتا ہے تو خدا فرماتا ہے، مفہوم: ’’ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی و سمندر پر چلنے کی اور سفر کی طاقت دی۔‘‘ اسی طرح اگر یہی انسان اپنے اندر قرآن حکیم کی ہدایات اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کا نمونہ پیش کرتا ہے تو پھر قرآن میں خدا نے وعدہ فرمایا، مفہوم: ’’اور تم ہی بلند ہو اگر تم مومن ہو جاؤ۔‘‘ لیکن اگر انسان اپنے آپ کو قرآنی چشمہ ہدایت سے محروم رکھے تو پھر قرآن میں باری تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا، مفہوم: ’’ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔‘‘ خداوند کریم کی وہ امانت جس کے اٹھانے سے تمام کائنات عاجز رہی ﷲ جل جلالہ نے اس امانت کو انسان کے سپرد فرمایا، اس امانت کے کچھ تقاضے ہیں اور قرآن کریم انسان سے ان تقاضوں کی تکمیل اور اس کی پیدائش سے لے کر موت تک اس امانت کے بار کو سنبھالنے کا مطالبہ کرتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس تمام تر ذمے داری کو ادا کرنے کے لیے انسان تین قوتوں سے کام لیتا ہے اور انہی تین قوتوں کو علماء اخلاق اور حکمائے اسلام نے تمام اچھے اور برے اخلاق و اعمال کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ ان میں پہلی قوت فکر ہے جسے سوچ اور علم کی طاقت کہہ سکتے ہیں۔ دوسری غصہ کی طاقت۔ اور تیسری خواہشات کی طاقت۔ اب اگر ان تینوں قوتوں کو اعتدال میں رکھا جائے تو انسان کام یاب ہو جاتا ہے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں ناکام رہتا ہے۔ سوچنے کی قوت کو استعمال کرنے اور اسے اعتدال میں رکھنے کے لیے قرآن حکیم کی تعلیمات میں تدبر کا حکم ملتا ہے۔ تدبر کا لفظی معنی غور و فکر کرنا، دور اندیشی اور سوچ سمجھ کر کوئی کام کرنا۔ انسان تدبر سے کام لینے کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہوتا ہے لیکن دو چیزیں تدبر اختیار کرنے سے روکتی ہیں، ایک غصہ دوسرے جلد بازی۔ جس طرح اسلام نے باقی تمام قوتوں کے لیے اعتدال کا حکم دیا ہے اسی طرح غصے کے بارے میں بھی اعتدال اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔ یعنی نہ اس کا استعمال بے جا کیا جائے اور نہ ہی بالکل کمی کر دی جائے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgy_o2uKx7TmZy7ReA_UxevrL-0WkRSszU0O3sVoNHsNm6sOy-dO9K7FekqTw4iczISJNvJRKkIQAWzOMfWGAyZfnqABUtDkI-ePFGI1yLwteoHraENuzoqaLW9XvDqLOuOoj6gALcxU5isJOLNLD7pj9rs2OmSr4UdYm9KEQNgpLwKtumjke7n9fvzieA/s4592/Islam%206.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3448" data-original-width="4592" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgy_o2uKx7TmZy7ReA_UxevrL-0WkRSszU0O3sVoNHsNm6sOy-dO9K7FekqTw4iczISJNvJRKkIQAWzOMfWGAyZfnqABUtDkI-ePFGI1yLwteoHraENuzoqaLW9XvDqLOuOoj6gALcxU5isJOLNLD7pj9rs2OmSr4UdYm9KEQNgpLwKtumjke7n9fvzieA/w400-h300/Islam%206.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اگر غصے کی کیفیت اور اس کی قوت کو بالکل استعمال نہ کیا جائے تو یہ کیفیت بزدلی کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے۔ اور اس کیفیت سے حضور اکرم ﷺ نے بھی پناہ مانگتے ہوئے دعا فرمائی، مفہوم: ’’اے ﷲ! مجھے بزدلی سے بچا۔‘‘ لیکن اگر غصہ کا استعمال ہر جگہ کیا جائے تو پھر ایک انسان اچھے بھلے معاشرہ میں بے چینی پیدا کر دیتا ہے اور اہل معاشرہ کی زندگی سے سکون رخصت ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کو یہ کام کرنے سے پہلے خصوصاً غصہ کے وقت میں تدبر یعنی غور و فکر اور سوچ سمجھ سے کام لینا چاہیے۔ دوسری چیز جو انسان کو تدبر اختیار کرنے نہیں دیتی وہ جلد بازی ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کاموں کی متانت، اطمینان اور سوچ سمجھ کر انجام دینا ﷲ کی طرف سے ہوتا ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کے اثر سے ہوتا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ذمہ داری کو اطمینان سے انجام دینے کی عادت اچھی ہے اس کے برعکس جلد بازی ایک بری عادت ہے اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق بردباری اور غور و فکر کے بعد کام کرنا ﷲ کو بہت پسند ہے۔ چناں چہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضری کے لیے مدینہ منورہ پہنچا، چوں کہ یہ لوگ کافی دور سے آئے تھے اس لیے گرد و غبار میں اٹے پڑے تھے جب یہ لوگ سواریوں سے اترے بغیر نہائے دھوئے، نہ اپنا سامان قرینے سے رکھا نہ سواریوں کو اچھی طرح باندھا، فوراً جلدی سے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے لیکن اس وفد کے سربراہ جن کا نام منذر بن عائذ تھا انہوں نے کسی قسم کی جلد بازی نہ کی بلکہ اطمینان سے اترے سامان کو قرینے سے ر کھا، سواریوں کو دانہ پانی دیا، پھر نہا دھو کر صاف ستھرے ہو کر وقار کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے وفد کے سربراہ منذر بن عائذ کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی تعریف کی اور فرمایا: ’’بے شک! تمہارے اندر دو خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ﷲ کو بہت پسند ہیں۔ ان میں سے ایک صفت بردباری اور دوسری صفت ٹھہر ٹھہر کر غور و فکر کر کے کام کرنے کی ہے۔‘‘ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان ہر کام سوچ و بچار کے بعد تحمل سے کرتا ہے تو وہ شخص اکثر مکمل کام کرتا ہے اور بہت کم نقصان اٹھاتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جب کہ بغیر سوچے سمجھے جلد بازی سے کام کرنے والے ایک عجیب قسم کے ذہنی خلجان کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اکثر نامکمل اور ناقص کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اسلامی احکام کے مطابق مسلمانوں کو تدبر یعنی غور و فکر سے کام لینا چاہیے اور مومن کی شان بھی یہی ہے۔ حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’مومن کو ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا۔‘‘ (اس لیے کہ مومن ہر کام غور و فکر اور تدبر سے کرتا ہے) یہ ارشاد آنحضور ﷺ نے اس وقت فرمایا جب کفار کا ایک شاعر ابُوعزہ مسلمانوں کی بہت زیادہ ہجو کیا کرتا تھا۔ کفار اور مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا اور بھڑکاتا رہتا۔ جنگ بدر میں جب یہ شاعر گرفتار ہوا تو حضور ﷺ کے سامنے اپنی تنگ دستی اور اپنے بچوں کا رونا روتا رہا، آپؐ نے ترس کھا کر فدیہ لیے بغیر اسے رہا فرما دیا، اس نے وعدہ کیا کہ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو آئندہ مسلمانوں کے خلاف ایسی حرکات نہیں کرے گا لیکن یہ کم ظرف شخص رہائی پانے کے بعد اپنے قبیلہ میں جا کر دوبارہ مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف ابھارنے لگا۔ غزوہ احد میں دوبارہ گرفتار ہو گیا۔ اب پھر وہی مگر مچھ کے آنسو بہانے شروع کر دیے، رحم کی اپیلیں کرنے لگا لیکن حضور ﷺ نے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا اور ساتھ ہی آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا۔ اس سے یہ بات بہ خوبی سمجھ میں آگئی کہ ایک عمل کرنے سے اگر کوئی نقصان ہو تو دوسری دفعہ وہ عمل نہیں کرنا چاہیے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ایک مرتبہ ایک شخص جناب رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے کام کو تدبر اور تدبیر سے کیا کرو اگر کام کا انجام اچھا نظر آئے تو اسے کرو اور اگر انجام میں خرابی اور گم راہی نظر آئے تو اسے چھوڑ دو۔‘‘ قرآن حکیم میں ﷲ رب العزت نے جا بہ جا تدبر کی ترغیب دی اور قرآن میں غور و فکر کرنے کی ہدایت فرمائی۔ سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ خدا کے علاوہ کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف ہوتا۔‘‘ پھر ﷲ تعالیٰ سورۂ محمد میں ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے یا ان کے دلوں میں قفل لگے ہوئے ہیں۔‘‘ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس میں چند چیزیں قابل توجہ ہیں ایک یہ کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: وہ غور کیوں نہیں کرتے، یہ نہیں فرمایا کہ وہ کیوں نہیں پڑھتے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن کے تمام مضامین میں بالکل اختلاف نہیں بہ شرطے کہ گہری نظر سے غور و فکر کے ساتھ قرآن پڑھا جائے۔ اور قرآن کا اچھی طرح سمجھنا تدبر ہی سے ہو سکتا ہے بغیر سوچے سمجھے پڑھنے سے یہ چیز حاصل نہ ہو گی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ قرآن کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب اور مفہوم میں غور کرے۔ تمام علوم کی مہارت رکھنے والے علماء جب قرآن میں تدبر کریں گے تو ہر ایک آیت سے سیکڑوں مسائل کا حل تلاش کر کے امت مسلمہ کے سامنے پیش فرمائیں گے۔ اور عام آدمی اگر قرآن حکیم کا ترجمہ اور تفسیر اپنی زبان میں پڑھ کر غور و فکر اور تدبر کرے گا تو اسے ﷲ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہو گی۔ البتہ عام آدمی کو غلط فہمی اور مغالطے سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ کسی عالم سے قرآن کو سبقاً سبقاً تفسیر کے ساتھ پڑ ھ لیں۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو کوئی مستند اور معتبر تفسیر کا مطالعہ کر لیں اور جہاں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یا شبہ پیدا ہو وہاں اپنی رائے سے فیصلہ نہ کریں بلکہ ماہر علماء سے رجوع کیا جائے۔ اس لیے کہ مومنین کی شان قرآن حکیم میں یہ بیان ہوئی، مفہوم: ’’اور جب ان کو ان کے پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گزر جاتے۔‘‘ یعنی مومن کی شان یہ ہے کہ وہ تدبر اور غور و فکر سے کام لے کر احکام اسلامی کو ادا کرے۔ ﷲ رب العزت ہمیں قرآن حکیم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں سوچ بچار، غور و فکر اور تدبر سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-6331788949721589652024-02-05T23:24:00.000-08:002024-02-05T23:24:15.676-08:00مسجد نبوی ریاض الجنہ میں آمد و رفت کے لیے نیا نظام<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEimMVZGGO70VQnsqXPEqd52IcrfNCkrDC7I0eakJCM7CMHuit0-9NARVV3f4xKVAoySJATYea5FLa0Gsni4CFK81dWYWumdTJ-flFjr6IHUMNZF8QhAmWGDzaQXopasg_yt3NNrS722_x0QQ66LJ7k1QVXxP33L7HCI8XNe7BtpncFRJnWMx1mNl5mZozM/s5062/Riadhul%20Jannah%202.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3262" data-original-width="5062" height="258" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEimMVZGGO70VQnsqXPEqd52IcrfNCkrDC7I0eakJCM7CMHuit0-9NARVV3f4xKVAoySJATYea5FLa0Gsni4CFK81dWYWumdTJ-flFjr6IHUMNZF8QhAmWGDzaQXopasg_yt3NNrS722_x0QQ66LJ7k1QVXxP33L7HCI8XNe7BtpncFRJnWMx1mNl5mZozM/w400-h258/Riadhul%20Jannah%202.jpg" width="400" /></a></div>سعودی عرب میں مسجد نبوی کی انتظامیہ نے ریاض الجنہ میں آمد ورفت کے حوالے سے آسانی پیدا کرنے اور راہداریوں کا نیا نظام جاری کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ الوطن اخبار کے مطابق مسجد نبوی انتظامیہ کا کہنا ہے’ وزارت حج و عمرہ کی جاری کردہ ہدایات کے مطابق زائرین کو سال میں صرف ایک بار ریاض الجنہ کی زیارت کا پرمٹ ملے گا۔‘ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’نیا پرمٹ 365 دن گزرنے پر نسک یا توکلنا ایپس کے ذریعے حاصل کیا جاسکے گا۔‘ یاد رہے مسجد نبوی کی انتظامیہ زائرین کو جملہ خدمات کی فراہمی اور زیارت و عبادت میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے حوالے سے موثر جامع حکمت عملی اختیار کررہی ہے۔ </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-67551382893966349802024-01-25T05:40:00.000-08:002024-01-25T05:40:19.511-08:00مکہ ریجن سردی کے موسم میں بھی گرم کیوں رہتا ہے؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjnJonmIIES470aT4Rdqo8sChsujrbIo1vsAERU8n2GV6qQlpQOZ1J4SPTEFCHJoduzgqTaIY0rPX4awNtvoi6UsnxISkv0LJdTWhGFj7hcIG8yBA82MprYGsJnZSZiIrB2dwrfjRE0T-vt0cTID3yx6JqeADuhcN4WhuP3yj6y5NdY92WO_ASW14l7jBk/s6000/Makkah%202.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="4000" data-original-width="6000" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjnJonmIIES470aT4Rdqo8sChsujrbIo1vsAERU8n2GV6qQlpQOZ1J4SPTEFCHJoduzgqTaIY0rPX4awNtvoi6UsnxISkv0LJdTWhGFj7hcIG8yBA82MprYGsJnZSZiIrB2dwrfjRE0T-vt0cTID3yx6JqeADuhcN4WhuP3yj6y5NdY92WO_ASW14l7jBk/w400-h266/Makkah%202.jpg" width="400" /></a></div>سعودی عرب میں قصیم یونیورسٹی میں موسمیاتی امور کے سابق پروفیسر اور ماحولیات و موسمیات کی سعودی سوسائٹی کے ڈپٹی چیئرمین عبداللہ المسند نے کہا ہے کہ ’موسم سرما میں مکہ مکرمہ ریجن متعدد جغرافیائی اور موسمی اسباب کی وجہ سے گرم رہتا ہے۔‘ اپنے ایکس اکاؤنٹ پر انہوں نے کہا کہ ’حجاز کے پہاڑ، مکہ مکرمہ ریجن میں سردی کے موسم کے دوران گرم رہنے کی بڑی وجہ ہیں۔‘ ’حجاز کے پہاڑ شمالی اور وسطی علاقوں سے آنے والی سرد ہواؤں کو مکہ مکرمہ ریجن پہنچنے سے روک دیتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کا علاقہ سطح سمندر سے صرف 300 میٹر اونچا ہے۔‘ علاوہ ازیں یہ علاقہ کسی حد تک جنوب میں واقع ہے اور شمالی علاقہ جات کی ٹھنڈی ہواؤں کے اثرات سے دور ہے۔ عبداللہ المسند نے مزید بتایا کہ ’مکہ مکرمہ ریجن میں گرمی کا ایک اہم سبب بحیرہ احمر سے اس کی قربت ہے۔‘ ’شام کے وقت بحیرہ احمر کے ساحلوں پر گرمی ہوتی ہے اور بحیرہ احمر کے قریبی علاقے سمندری ہواؤں کی وجہ سے گرم ہو جاتے ہیں۔‘ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ اردو نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-49698921013605207002024-01-22T02:09:00.000-08:002024-01-22T02:09:28.112-08:00وسعت رزق<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEghUPtsMIQ-IepOC0pstO4Xd6M-LLH9gtcmm0v9birkQzV1U9HkukkE7nf5DaibC_fDqotwKZJOtXwWPFD0HZc7a7QPwpJ05eP2gfxaS6FExp9ACDH3_pNGpiIMNVUGho0fCsmCkZz0mwRZFAgw1iRiaSy79d4eswbsZr6L0UZIaFaCqsTEa-jgmUvsUC8/s6124/Islam%205.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="4082" data-original-width="6124" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEghUPtsMIQ-IepOC0pstO4Xd6M-LLH9gtcmm0v9birkQzV1U9HkukkE7nf5DaibC_fDqotwKZJOtXwWPFD0HZc7a7QPwpJ05eP2gfxaS6FExp9ACDH3_pNGpiIMNVUGho0fCsmCkZz0mwRZFAgw1iRiaSy79d4eswbsZr6L0UZIaFaCqsTEa-jgmUvsUC8/w400-h266/Islam%205.jpg" width="400" /></a></div>اس دور میں معاشرے کا تقریباً ہر فرد ہی رزق کی تنگی سے پریشان ہے اور اس کی ساری تگ و دو حصول رزق کے لیے رہ گئی ہے۔ ہم سب رزق میں وسعت اور برکت کی خواہش تو رکھتے ہیں، مگر قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت کے اسباب سے ناواقف ہیں۔ صرف دنیاوی جدوجہد، محنت اور کوشش پر انحصار کر لیتے ہیں۔ لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت اور برکت کے چند اسباب تحریر کیے جارہے ہیں تاکہ ہمیں وسعت رزق کے لیے اسلام کے راہ نما اصولوں سے آگاہی مل سکے۔ اگر ہم دنیاوی جدوجہد کے ساتھ، اِن اسباب کو بھی اختیار کر لیں، تو ﷲ تعالیٰ ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء ﷲ، جو ہر شخص کی خواہش ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">استغفار و توبہ <br />ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا، مفہوم: ’’پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک! وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔‘‘ (سورۂ نوح) مفسرین لکھتے ہیں کہ سورۂ نوح کی ان آیات اور سورۂ ہود کی آیات میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی مانگنے سے رزق میں وسعت اور برکت ہوتی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے کثرت سے ﷲ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی، ﷲ تعالیٰ اس کو ہر غم سے نجات دیں گے، ہر مشکل سے نکال دیں گے اور اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔‘‘ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند حاکم)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgp0_siannOBxrf7aCsgBfuxxeQeGl5jIyfc47I-g5cMEjxjDlsI368qgaIBUmBhJnkzDRowTb-26cyWDQ5ls03WET2RT69a7gNYxn5-jXX15sPluNrc1AM7G-npDjQ_KhPPTVskd0qXC4x6QwddfJNkQtufyAqYg6QhEl1dMyXy72fwi9DPb-sbSHFaE0/s3666/Islam%206.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2449" data-original-width="3666" height="268" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgp0_siannOBxrf7aCsgBfuxxeQeGl5jIyfc47I-g5cMEjxjDlsI368qgaIBUmBhJnkzDRowTb-26cyWDQ5ls03WET2RT69a7gNYxn5-jXX15sPluNrc1AM7G-npDjQ_KhPPTVskd0qXC4x6QwddfJNkQtufyAqYg6QhEl1dMyXy72fwi9DPb-sbSHFaE0/w400-h268/Islam%206.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">تقوی <br />ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، مفہوم : ’’اور جو کوئی ﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (ہر مشکل سے) نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کو وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (سورۂ الطلاق)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ﷲ تعالی پر کامل توکل <br />توکل (بھروسا) کے معنی امام غزالیؒ نے یوں لکھے ہیں: ’’توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اسی پر ہو جس پر توکل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔‘‘ (احیاء العلوم) ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم : ’’اور جو کوئی ﷲ تعالیٰ پر بھروسا رکھے، وہ اس کو کافی ہے۔‘‘ (سورۂ الطلاق) رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ’’اگر تم ﷲ تعالیٰ پر اسی طرح بھروسا کرو جیسا کہ اس پر بھروسا کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ) یاد رکھیں! حصولِ رزق کے لیے کوشش اور محنت کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کو بھی حصول رزق کے لیے گھونسلے سے نکلنا پڑتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عبادت <br />اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم دن رات مسجد میں بیٹھے رہیں اور حصول رزق کے لیے کوئی کوشش نہ کریں بلکہ ﷲ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے زندگی گزاریں۔ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر، میں تیرے سینے کو تونگری سے بھر دوں گا، اور لوگوں سے تجھے بے نیاز کردوں گا۔‘‘<br />(ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حج اور عمرے <br />رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:<br />’’پے در پے حج اور عمرے کیا کرو۔ بے شک! یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر (یعنی غریبی اور گناہوں) کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔‘‘ ( ترمذی، نسائی)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">صلۂ رحمی <br />رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اپنے رزق میں کشادگی چاہے، اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔‘‘ (بخاری) صلۂ رحمی سے رزق میں وسعت اور کشادگی ہوتی ہے۔ اس موضوع سے متعلق حدیث کی تقریباً ہر مشہور و معروف کتاب میں مختلف الفاظ کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات موجود ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">انفاق فی سبیل ﷲ <br />ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، مفہوم: ’’اور تم لوگ (ﷲ کی راہ میں) جو خرچ کرو، وہ اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘ (سورۂ سبا) احادیث کی روشنی میں علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ ﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں ملے گا۔ دنیا میں بدلہ مختلف شکلوں میں ملے گا، جس میں ایک شکل رزق کی کشادگی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کی اولاد! تو خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‘‘ (مسلم) عزیز بھائیو! جس طرح حصولِ رزق کے لیے ہم اپنی ملازمت، کاروبار اور تعلیم و تعلم میں جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں، جان و مال اور وقت کی قربانیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح قرآن و حدیث کی روشنی میں ذکر کیے گئے اِن اسباب کو بھی اختیار کر لیں تو ﷲ تبارک و تعالیٰ ہماری روزی میں وسعت اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء ﷲ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ﷲ تعالیٰ ہمیں اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر یہ دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-25031038275335866932024-01-22T01:23:00.000-08:002024-01-22T01:23:51.233-08:00غیبت کبیرہ گناہ اور سنگین جرم<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjDH0lv_aFb6SWZPk7Meg6vaiRgP3wDLXzvhsW27pG4ErY93ncuJZmyvXTkXj_lrLyUNaS6_nGC2yE6xedhINTGRPLimewZYl0Jsl1SWZwFpUCdHsT5HLZpN1N4tqdoVDekfBptyxJNCwQXrLwHq6ni-hAzVllqTiDVcnUCbscXvhbBO7a0qWpjVGzlb9U/s5916/Islam%207.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3944" data-original-width="5916" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjDH0lv_aFb6SWZPk7Meg6vaiRgP3wDLXzvhsW27pG4ErY93ncuJZmyvXTkXj_lrLyUNaS6_nGC2yE6xedhINTGRPLimewZYl0Jsl1SWZwFpUCdHsT5HLZpN1N4tqdoVDekfBptyxJNCwQXrLwHq6ni-hAzVllqTiDVcnUCbscXvhbBO7a0qWpjVGzlb9U/w400-h266/Islam%207.jpg" width="400" /></a></div>اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کے لئے خوشخبری و بشارت سنانے والا اور نافرمانوں کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نافرمانی وگناہ ہمارے معاشرے اور گفتگو میں بہت پھیلا ہوا ہے اور ہمارا اس کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا، وہ گناہ اور بدی، غیبت ہے جس میں مسلمان کی بے عزتی کی جاتی اور دل و دماغ میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ غیبت کی تعریف یہ ہے’’ کسی مسلمان کی پیٹھ پیچھے اس کی وہ بات کرنا کہ اگر وہی بات اس کے سامنے کی جائے تو اس کو ناگوار ہو اور بری لگے ۔‘‘ یہ اس وقت ہے جبکہ وہ برائی اس کے اندر ہو اور اگر نہ ہو تو پھر وہ بہتان ہو جاتا ہے اور یہ دوہرا گناہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے غیبت کو بدترین سود اور زنا سے سخت گناہ بتایا ہے اور ایک حدیث میں ’’اپنی ماں سے بدکاری سے بھی بدتر بیان کیا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات میں غیبت کرنے والوں اور مسلمانوں کی آبروریزی کرنے والوں کو دیکھا کہ وہ ناخنوں سے اپنے چہرے کا گوشت نوچ رہے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھیں اور اس گناہ کی نفرت عطاء فرمائیں۔ غیبت میں امیر وغریب ، مزدور وملازم ، مرد وعورت وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے اسی طرح ہاتھ ، آنکھ کے اشاروں سے بھی ہوتی ہے۔ گناہ اللہ کی نافرمانی کے ساتھ بندہ کی بھی حق تلفی ہے۔ ہم لوگ تھوڑی توجہ کر لیں اپنے ملازمین، گھروں میں کام کرنے والوں کی کوتاہی پر برا بھلا کہنے کی بجائے دعائیہ جملے کہہ دیں تو ہمارا بھلا ہو گا اور ان کو بھی دعا کے اثرات سے فائدہ ہو گا ۔ مثلاً ’’اللہ تمہیں ہدایت دیں، اللہ تجھے نیک بخت کرے، اللہ تجھے جنت میں لے کر جائے، اللہ تمہیں نیک سمجھ دیں ۔‘‘ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ اللعالمینؐ بنایا ہے تو آپ ؐ نے اس سے بچنے اور جو ہو گیا اس کے برے انجام سے نجات پانے کا طریقہ بھی سکھا دیا ہے۔ اللہ جل شانہُ فرماتے ہیں ’’ اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیا ں گناہ ہیں (۱) اور بھید نہ ٹٹولا کرو (۲) اور نہ تم کسی کی غیبت کرو (۳) کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی (۴) اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi6Dye3EWDMleiGd98zXvO26Vdm6FBcfOpES9B7yi6R027M_T08I3DOlzyju8idzadhNpqUu-zNMv4z20vTEFiLQfPjFIKMlslRXHNIRbxQbDbxwbFzxZoNDwE4g1Wz20RuY8Y-4U_D6rpwuxBYSU9rm-tgoEEHT4xG5QcZuU0kEZS8U9LFrPGkvYClWj4/s5184/Islam%208.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3456" data-original-width="5184" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi6Dye3EWDMleiGd98zXvO26Vdm6FBcfOpES9B7yi6R027M_T08I3DOlzyju8idzadhNpqUu-zNMv4z20vTEFiLQfPjFIKMlslRXHNIRbxQbDbxwbFzxZoNDwE4g1Wz20RuY8Y-4U_D6rpwuxBYSU9rm-tgoEEHT4xG5QcZuU0kEZS8U9LFrPGkvYClWj4/w400-h266/Islam%208.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">( سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12) اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’بڑی خرابی ہے ایسے شخص کی جو غیبت ٹٹولنے والا، غیبت کرنے والا ہو‘‘ ( سورہ الھمزہ، آیت نمبر 1) یہاں بہت واضح ہے کہ اللہ تعالی نے غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے اور غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ غیبت اورغیبت کرنے والے کو رسول کریمؐ نے بھی سخت ناپسند فرمایا ہے۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسولؐ ہی زیادہ جانتے ہیں۔آنحضرتﷺ نے فرمایا غیبت یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا ذکر اس طرح کرو کہ جس کو اگر وہ سن لے تو اسے نا پسند کرے، بعض صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ یہ بتائیے کہ اگر میرے اس بھائی میں جس کا میں نے برائی کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ عیب موجود ہو جو میں نے بیان کیا ہے تو کیا تب بھی غیبت ہو گی یعنی میں نے ایک شخص کے بارے میں اس کی پیٹھ پیچھے یہ ذکر کیا کہ اس میں فلاں برائی ہے جب کہ اس میں واقعتاً وہ برائی موجود ہو اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہو، تو ظاہر ہے کہ اگر وہ شخص اپنے بارے میں میرے اس طرح ذکر کرنے کو سنے گا تو خوش نہیں ہو گا تو کیا میرا اس کی طرف سے کسی برائی کو منسوب کرنا جودرحقیقت اس میں ہے غیبت کہلائے گا؟</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تم نے اس کی جس برائی کا ذکر کیا ہے اگر وہ واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں ہے جس کا تم نے ذکر کیا ہے تو تم نے اس پر بہتان لگایا، یعنی یہی تو غیبت ہے کہ تم کسی کا کوئی عیب اس کی پیٹھ پیچھے بالکل سچ بیان کرو، اگر تم اس کے عیب کو بیان کرنے میں سچے نہیں ہو کہ تم نے اس کی طرف جس عیب کی نسبت کی ہے وہ اس میں موجود نہیں ہے تو یہ افتراء اور بہتان ہے جو بذات خود بہت بڑا گناہ ہے‘‘ ( مشکوٰۃ شریف، جلد نمبر چہارم ، حدیث نمبر 766) اس حدیث میں غیبت کے حوالہ سے بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا کہ اگر کسی شخص میں کوئی برائی موجو د بھی ہے تو اس کی پیٹھ پیچھے یا دوسروں کے سامنے اس برائی کے بیان سے مکمل گریز کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس سے نفرت دلائی ہے، معراج کے سفر کے دوران حضور اکرم ﷺ کو جنت و دوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے، جن میں سے ایک گناہگار کے احوال پیش کئے جاتے ہیں تاکہ اس گناہ (غیبت) سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی۔ میں ایسے لوگوں پر سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں (یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔‘‘ (ابوداود) حضرت جبرائیل ؑ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ لوگوں کی عزت وآبرو کے درپے رہتے، ان کی برائی کرتے اور لوگوں کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یہ ہی ان کی سزا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے ہی اپنے ہاتھوں سے نوچتے رہیں گے۔ اگر کوئی کسی شخص کی برائی کر رہا ہو، جو موجود نہ ہو اور کوئی کہہ دے کہ یہ بری بات ہے۔ تو جواب ملتا ہے کہ فلاں میں یہ برائی ہے، ہم جھوٹ تھوڑی بول رہے ہیں۔ بے شک آپ جھوٹ نہیں بول رہے، ہے تو برائی۔ اسی کو تو غیبت کہتے ہیں۔ اگر وہ بات کرو گے، جو اس شخص میں موجود نہ ہو گی وہ تہمت کہلائے گی۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">غیبت جس قدر بری بیماری ہے۔ اسی قدر ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ یاد رہے انسان کی غیبت کرنا اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’بدکاری کرنے والا توبہ کر لیتا ہے مگر غیبت کرنے والا توبہ نہیں کرتا‘‘۔ (شعب الایمان للبیہقی) غیبت کرنے والا دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوتا ہے تو اس کی آخرت بھی خراب ہوتی ہے۔ موجودہ معاشرہ میں حالات یہ ہیں کہ ہم غیبت کو برائی ہی تسلیم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کی برائیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کا بیان فیشن کے طور پر کیا جاتا ہے، اور دفتری زبان میں اسے ’لابنگ‘ کا نام دیا جاتا ہے جب کہ یہ کسی بھی طرح درست نہیں، بدقسمتی سے آج ہم علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسی باتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جو غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی ہر بات جس سے کسی کی برائی واضح ہوتی ہو، چاہے اس کا تعلق اس کے لباس ، جسم ، اس کے فعل یا قول کے متعلق ہو ، مثال کے طور پر جسم کے بارے میں کہا جائے کہ اس کا قد بہت لمبا ہے یا اس کا رنگ کالا (سیاہ) ہے یا پھر وہ بھینگا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اسی طرح اگر کسی کے بارے میں غلط بیانی کی یا اخلاق کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بری عادات والا ہے ، یا مغرور ، بد تمیز اور بزدل ہے ، یا افعال کے بارے میں ہو کہ وہ چور ، خائن، بے ایمان، بے نمازی ہے، نماز میں ارکان کو سکون سے ادا نہیں کرتا ، قرآن پاک غلط پڑھتا ہے یا کہے کہ اپنے کپڑوں کو نجاست سے پاک نہیں رکھتا یا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا یا حرام مال کھاتا ہے ، زبان دراز ہے، بہت پیٹو ہے۔ سوتا بہت ہے، اس طرح لباس کے بارے میں کہا جائے کہ کھلی آستین والا کپڑا پہنتا ہے، دراز دامن یا میلا کچیلا لباس پہنتا ہے ، یہ سب باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غیبت کرنا گناہ کبیرہ تو ہے ہی، غیبت سننا بھی گناہ کبیرہ ہے ، لہٰذا کوئی بھی شخص غیبت کر رہا ہو تو ہمیں اس کو روکنا چاہیے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’جو اپنے مسلمان بھائیوں کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے (مسند امام احمد) متذکرہ بالا آیات قرانی اور احادیث کی روشنی میں غیبت کا گناہ کبیرہ ہونا اور غیبت گو کے عذاب بارے مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے جب کہ آج ہم غیبت کو تو کوئی برائی یا گناہ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ، ہمیں چاہئے کہ نہ صرف خود غیبت کرنے سے گریز اور پرہیز کریں بلکہ دوسرں کو بھی اس کی تلقین کریں ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبولیت و مقبولیت عطا فرما کر تمام گناہوں کی نفرت اور اپنی فرمانبرداری کی رغبت ومحبت ہم سب کو نصیب فرمائیں ۔ ہمارے معاشرہ کو پاکیزہ بنا دیں۔ ہمارے قلوب میں محبتیں ، جوڑ پیدا فرما دیں۔ اللہ جل شانہُ ہمیں غیبت کرنے و سننے سے بچائے اور نیک اعمال کر نے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مولانا قاری محمد سلمان عثمانی </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-73873842281481563912023-12-27T06:13:00.000-08:002023-12-27T06:13:27.426-08:00 حج بیت اللہ کی فضیلت واہمیت<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhyjSPZmiTK7E4LZMdJGUZF74xlmHNvJfXtgaKWKSOS2Qi6Jzz28C8nGe3WVN1CDGWD8_bXuxMdrfaX1J0VIFRFr6u0CqpcaNoKeclh2TtiqT61tbsuj-P_WBkZxSpUVf6LFmZr6l4wYuW_ucXeIycthBvcQVgMD4wjqkB0WmMrHJv9xfDXhYtPi1QwZGM/s2048/Hajj%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1536" data-original-width="2048" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhyjSPZmiTK7E4LZMdJGUZF74xlmHNvJfXtgaKWKSOS2Qi6Jzz28C8nGe3WVN1CDGWD8_bXuxMdrfaX1J0VIFRFr6u0CqpcaNoKeclh2TtiqT61tbsuj-P_WBkZxSpUVf6LFmZr6l4wYuW_ucXeIycthBvcQVgMD4wjqkB0WmMrHJv9xfDXhYtPi1QwZGM/w400-h300/Hajj%203.jpg" width="400" /></a></div>اسلام کے بنیادی ارکان میں سے چوتھا رکن حج ہے، حج 9ھ میں فرض ہوا، اس کی فرضیت قطعی ہے، جو اس کی فرضیت کا انکار کرے کافر ہے مگرعمر بھر میں صرف ایک بار فرض ہے۔ جو صاحب استطاعت ہو۔ حج، اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ایسا رکن ہے جو اجتماعیت اور اتحاد و یگانگت کا آئینہ دار ہے۔ قرآن کریم میں حج کی فرضیت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًاؕ-وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا° وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ۔ (آل عمران) ترجمہ : بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور ہدایت تمام جہان کے لیے، اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم اور جو شخص اس میں داخل ہو با امن ہے اور ﷲ کے لیے لوگوں پر بیت ﷲ کا حج ہے، جو شخص باعتبار راستہ کے اس کی طاقت رکھے اور جو کفر کرے تو ﷲ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔ اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:{وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِؕ}(البقرۃ) حج و عمرہ کو ﷲ کے لیے پورا کرو۔ کتب احادیث میں سے ایسی کثیر روایات ہیں جن میں حج کی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ان میں سے چند ایک روایات ذیل میں درج کی جارہی ہیں:</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حج مبرور کی فضیلت <br />٭ حج مبرور وہ حج ہے جس میں شہوانی باتیں فسق وفجور اور لڑائی جھگڑا اور معصیت نہ ہو۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے {الْحَجُّ أَشْہُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ}(البقرہ) ترجمہ کنزالایمان: حج چند معلوم مہینے ہیں تو جو ان میں حج کی نیت کرے توحج میں نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو اور نہ کوئی گناہ ہو اور نہ کسی سے جھگڑا ہو۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان (گناہوں) کا کفارہ ہے، جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔ (بخاری)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgtZHLbHyo7UfOGPrmuF4j3vwC5rOebRWvL53P4mw5VXqugk-9_QzvQ4vUXS9yt5N_U5JKSig2YktXo9UefvxCzh8rcI0DFNUTR4q3xszOzgIo4bMXWpH-GultwATWQVTf08yEfr7_FhiRr_2SGMvL9rVw5NSX79yV4YqTcQpQ2GmUBio2sKjMZOU5S-gk/s2048/Hajj%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1536" data-original-width="2048" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgtZHLbHyo7UfOGPrmuF4j3vwC5rOebRWvL53P4mw5VXqugk-9_QzvQ4vUXS9yt5N_U5JKSig2YktXo9UefvxCzh8rcI0DFNUTR4q3xszOzgIo4bMXWpH-GultwATWQVTf08yEfr7_FhiRr_2SGMvL9rVw5NSX79yV4YqTcQpQ2GmUBio2sKjMZOU5S-gk/w400-h300/Hajj%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">احرام کی فضیلت <br />٭ ام المومنین ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے رسول ﷲﷺ کو فرماتے سنا کہ: جو مسجد اقصیٰ سے مسجد الحرام تک حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر آیا اس کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے یا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ (ابو داؤد) رسول ﷲﷺ ارشاد فرماتے ہیں: محرم جب آفتاب ڈوبنے تک لبیک کہتا ہے تو آفتاب ڈوبنے کے ساتھ اس کے گناہ غائب ہو جاتے ہیں اور ایسا ہو جاتا ہے جیسا اس دن کہ پیدا ہوا۔ (ابن ماجہ)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آب زمزم کی فضیلت <br />٭ رسول اللہﷺ نے فرمایا: زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ) نبی کریمﷺ نے فرمایا: روئے زمین پر سب سے بہتر پانی زمزم ہے جو بھوکے کے لیے کھانا اور بیمار کے لیے شفا ہے۔ (طبرانی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زمزم کا پانی (مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ) لے جایا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ رسول اللہﷺ بھی لے جایا کرتے تھے۔ (ترمذی)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حج پرخرچ کرنے کی فضیلت <br />٭ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: حج پر خرچ کرنا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرح ہے، (جس کا ثواب) سات سو گنا تک ہے۔ (مسند احمد) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تیرے عمرے کا ثواب تیری خرچ کے بقدر ہے یعنی جتنا زیادہ اس پر خرچ کیا جائے گا اتنہا ہی ثواب ہو گا۔ (الحاکم)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">غربت اور گناہوں کو مٹانے والا عمل <br />٭ رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں: حج و عمرہ محتاجی اور گناہوں کو ایسے دور کرتے ہیں، جیسے بھٹّی لوہے اور چاندی اور سونے کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔ (ترمذی) رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ کے لیے حج کیا اور (اس دوران) فحش کلامی یا جماع اور گناہ نہیں کیا تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہو کر اپنے گھر اس طرح) لوٹا جیسا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔ (بخاری)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حج کرنے پر نیکیوں کی تعداد <br />٭ رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں: جو حاجی سوار ہو کر حج کرتا ہے اس کی سواری کے ہر قدم پر ستر نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جو حج پیدل کرتا ہے اس کے ہر قدم پر سات سو نیکیاں حرم کی نیکیوں میں سے لکھی جاتی ہیں۔ آپﷺ سے دریافت کیا گیا کہ حرم کی نیکیاں کتنی ہوتی ہیں تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ (بزاز، کبیر، اوسط)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حج کی نیکی کیا ہے؟<br />٭ آپﷺ سے پوچھا گیا کہ حج کی نیکی کیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا: ”حج کی نیکی لوگوں کو کھانا کھلانا اور نرم گفتگو کرنا ہے۔ (رواہ احمد و الطبرانی فی الاوسط و ابن خزیمۃ فی صحیحہ)۔ مسند احمد اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: حج کی نیکی، کھانا کھلانا اور لوگوں کو کثرت سے سلام کرنا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حج کی تلبیہ <br />٭ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جب حاجی لبیک کہتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے دائیں اور بائیں جانب جو پتھر، درخت اور ڈھیلے وغیرہ ہوتے ہیں وہ بھی لبیک کہتے ہیں اور اسی طرح زمین کی انتہا تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے (یعنی ہر چیز ساتھ میں لبیک کہتی ہے)۔ (ترمذی، ابن ماجہ)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بیت اللہ پر رحمتوں کا نزول <br />٭ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ جل شانہ کی ایک سو بیس رحمتیں روزانہ اس گھر (خانہ کعبہ) پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر، چالیس وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور بیس خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں کو حاصل ہوتی ہیں ۔ (طبرانی) رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں: جس نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور دو رکعات ادا کیں گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا۔ (ابن ماجہ)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حجر اسود، مقام ابراہیم اور رکن یمانی <br />٭ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: حجر اسود اور مقام ابراہیم قیمتی پتھروں میں سے دو پتھر ہیں، اللہ تعالی نے دونوں پتھروں کی روشنی ختم کر دی ہے، اگر اللہ تعالی ایسا نہ کرتا تو یہ دونوں پتھر مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کر دیتے۔ (ابن خزیمہ) حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: حجر اسود جنت سے اترا ہوا پتھر ہے جو کہ دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا ہے۔ (ترمذی) نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: حجر اسود کو اللہ جل شانہ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہو گی جن سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اس شخص کے حق میں جس نے اس کا حق کے ساتھ بوسہ لیا ہو۔ (ترمذی، ابن ماجہ) رسول اللہﷺ فرماتے ہیں ان دونوں پتھروں (حجر اسود اور رکن یمانی) کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔ (ترمذی) حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: رکن یمانی پر ستر فرشتے مقرر ہیں جو شخص وہاں جا کر یہ دعا پڑھے "اللھم انی اسئلک العفو و العافیۃ فی الدنیا و الاخرۃ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار ”تو وہ سب فرشتے آمین کہتے ہیں۔ (ابن ماجہ)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حطیم بیت اللہ کا حصہ ہے <br />٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کعبہ شریف میں داخل ہو کر نماز پڑھنا چاہتی تھی۔ رسول اللہﷺ میرا ہاتھ پکڑ کر حطیم میں لے گئے اور فرمایا: جب تم بیت اللہ (کعبہ) کے اندر نماز پڑھنا چاہو تو یہاں (حطیم میں) کھڑے ہو کر نماز پڑھ لو۔ یہ بھی بیت اللہ شریف کا حصہ ہے۔ تیری قوم نے بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کے وقت (حلال کمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے) اسے (چھت کے بغیر) تھوڑا سا تعمیر کرا دیا تھا۔ (نسائی)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سفر حج میں انتقال <br />٭ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: جو حج کے لیے نکلا اور مر گیا۔ قیامت تک اُس کے لیے حج کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا اور جو عمرہ کے لیے نکلا اور مر گیا اس کے لیے قیامت تک عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا اور جو جہاد میں گیا اور مر گیا اس کے لیے قیامت تک غازی کا ثواب لکھا جائے گا۔ (مسند أبي یعلی) ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول ﷲﷺ فرماتے ہیں: جو اس راہ میں حج یا عمرہ کے لیے نکلا اور مر گیا اس کی پیشی نہیں ہو گی، نہ حساب ہو گا اور اس سے کہا جائے گا تو جنت میں داخل ہو جا۔ (المعجم الأوسط)<br />اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیب پاکﷺ کے روضہ کی زیارت نصیب فرما آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">قاری عبدالرحیم حنفی خطیب مرکزی عیدگاہ مسجد پنوعاقل</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-76289255239344954902023-12-12T02:45:00.000-08:002023-12-12T02:45:59.831-08:00دور ابتلاء میں صبر و یقین کی اہمیت<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgzO77ASdFqPzC2Y_pOHh_Rz54Ld1yf1oV-8THxkAHt6cAzlMpbAMGjdiWch1ViuMeZJ7uE0z2pkHUPNjhcRl9eeoW2nJXDooBHCSf9A_-8bReaw5KdwiVWVkBsLupmLcpgXRRIoy_JQL75LkVTRNslzO7uooTxcf5Xsj5OXqcw-WOUMeIaA430E0k09oY/s2560/Islam%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1920" data-original-width="2560" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgzO77ASdFqPzC2Y_pOHh_Rz54Ld1yf1oV-8THxkAHt6cAzlMpbAMGjdiWch1ViuMeZJ7uE0z2pkHUPNjhcRl9eeoW2nJXDooBHCSf9A_-8bReaw5KdwiVWVkBsLupmLcpgXRRIoy_JQL75LkVTRNslzO7uooTxcf5Xsj5OXqcw-WOUMeIaA430E0k09oY/w400-h300/Islam%204.jpg" width="400" /></a></div>قرآن کریم نے اہل ایمان کی ہدایت کے لیے تاریخ انسانی سے کچھ واقعات منتخب کر کے پیش کیے ہیں، یہ واقعات زیادہ تر گذرے ہوئے انبیائے کرامؑ اور ان کی قوموں کے ہیں۔ واقعات کا یہ انتخاب چوں کہ اس رب کا ہے جو سب بڑا باخبر اور ہر چیز پر قادر ہے اس لیے ان واقعات میں جہاں عبرت و نصیحت کا ایک جہاں آباد ہے، وہیں زندگی میں پیش آنے والے مختلف حالات اور چیلنجز کے لیے بہترین راہ نمائی اور ہدایات بھی موجود ہیں۔ اس تحریر میں ہم زیادہ واقعات سے تعرض نہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی تاریخ کا صرف ایک واقعہ پیش کرتے ہیں جو امت مسلمہ کے موجودہ حالات سے بہت ملتا جلتا ہے۔ ساتھ ہی بنی اسرائیل کے ہادی و راہبر ﷲ کے عظیم پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام کا ایک مختصر سا خطاب بھی نقل کریں گے، جو آپؑ نے اس موقع سے ارشاد فرمایا تھا، جس میں ہمارے لیے بھی موجودہ حالات میں بہترین راہ نمائی موجود ہے۔ بنی اسرائیل کے جدامجد حضرت یعقوبؑ کا اصلی وطن کنعان نام کی ایک بستی تھی، جو فلسطین کے شہر بیت المقدس سے چند میل کے فاصلے پر واقع تھی، بھائیوں کی بدخواہی اور شرارت نے حضرت یعقوبؑ کے چہیتے فرزند حضرت یوسفؑ کو ان سے جدا کر کے مصر میں پہنچا دیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ﷲ کا کرنا ایسا کہ حضرت یوسفؑ مصر میں کسی عام شخص کے گھر پہنچنے کے بہ جائے عزیز مصر (مصر کے وزیر خزانہ) کے گھر پہنچ گئے، وہاں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر حضرت یوسفؑ کی عفت و پاکیزگی، امانت و دیانت ، علم و آگہی اور فہم فراست کی دھاگ بیٹھ گئی۔ اسی دور میں مصر میں ایک لمبی قحط سالی اور سخت قسم کے غذائی بحران کے آثار ظاہر ہوئے، تو حضرت یوسفؑ نے خوراک اور زرعی انتظام و انصرام کی باگ ڈور شاہ مصر سے درخواست کر کے اپنے ہاتھوں میں لے لی، اور اپنی بہترین منصوبہ بندی اور اچھے نظم و نسق کی ذریعے اس بحران پر قابو پانے میں کام یاب ہو گئے۔ حضرت یوسفؑ کے اعلی اخلاق کی دھاگ دلوں پر تو پہلے ہی بیٹھ چکی تھی، اب اس بہترین حکمت عملی کے ذریعہ جو عظیم احسان انہوں نے اہل مصر پر کیا اس کے آگے ان کی گردن بھی جھک گئی اور انہوں نے ملک کی زمام اقتدار حضرت یوسفؑ کے حوالے کر دی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgZaNVWqYl4N4PbQPl1DELrqPtHjctpYrpR6uTGehscuMNIRsoEuaSuxJTrKVTXrmcvKoTIwDE8ZvrG8tY5Di2PVnTP6EfMX3rxtnbBCb1eXH5Gqjm6Ub7MnKlfykfYAtmBLXQLKi9xe1jQRFXNozryelGVEQYQEF8EcySo0o_JxrO_inIK6ZClmH1T7m0/s2816/Islam%205.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1880" data-original-width="2816" height="268" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgZaNVWqYl4N4PbQPl1DELrqPtHjctpYrpR6uTGehscuMNIRsoEuaSuxJTrKVTXrmcvKoTIwDE8ZvrG8tY5Di2PVnTP6EfMX3rxtnbBCb1eXH5Gqjm6Ub7MnKlfykfYAtmBLXQLKi9xe1jQRFXNozryelGVEQYQEF8EcySo0o_JxrO_inIK6ZClmH1T7m0/w400-h268/Islam%205.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس موقع سے حضرت یوسفؑ نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوبؑ اور ان کے پورے خاندان کو کنعان سے بلا کر مصر میں بسا دیا، حضرت یوسفؑ کی عزت و حرمت کی وجہ سے مصر میں بنی اسرائیل کو بھی احترام و اکرام ملا اور عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے، مگر حضرت کے بعد رفتہ رفتہ بنی اسرائیل کی عزت میں فرق آتا گیا، اور چند نسلوں کے بعد وہ اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری بنا دیے گئے اور خدمت و جفاکشی اور بے گاری کے کام جو سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں سے لیے جاتے ہیں وہی بنی اسرائیل سے بھی لیے جانے لگے۔ اِدھر فرعون مصر کو بعض کاہنوں نے یہ پیشین گوئی کی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تمہاری یہ عظیم سلطنت برباد ہو جائے گی۔ یہ سننا تھا کہ فرعون نے حکم جاری کر دیا کہ بنی اسرائیل میں پید اہونے والے ہر لڑکے کو قتل کر دیا جائے، چناں چہ اس پر عمل شروع ہو گیا اور بنی اسرائیل پر ایک ناگہانی قیامت ٹوٹ پڑی، انہی حالات میں ﷲ تعالی نے حضرت موسیؑ کو پیدا فرمایا اور اسباب ایسے پیدا کر دیے کہ حضرت موسیؑ کی پرورش بہ جائے بنی اسرائیل کے خود فرعون کے محل میں ہوئی اور وہ فرعون کے جلادوں سے ہر طرح محفوظ رہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ایک عرصہ کے بعد یہی حضرت موسیؑ، فرعون، اس کی قوم اور بنی اسرائیل طرف رسول بنا کر بھیجے گئے، ﷲ کے حکم سے حضرت موسیؑ نے فرعون کو معجزات دکھائے اور اس کے سامنے دو مطالبات رکھے، ایک یہ کہ ﷲ پر ایمان لائے اور اپنے رب ہونے کا دعوی ترک کر کے، اور دوسرے بنی اسرائیل کو آزاد کر دے تاکہ حضرت موسیؑ ان کو مصر سے نکال کر ان کے اصلی وطن کنعان میں لے کر جا کر بسائیں۔ فرعون آسانی سے ان مطالبات کو تسلیم کرنے والا کب تھا۔ اس نے موسیؑ کو مات دینے کے لیے جادوگروں کو بلا کر حضرت موسیؑ سے مقابلہ کرایا، جادوگروں نے فاتحانہ انداز میں اپنے جادو کے جوہر دکھائے اور سمجھے کہ ان کا جادو سر چڑھ کر بولے گا، مگر ﷲ کے حکم سے موسیؑ کے عصا نے اژدھا بن کر جب ان کے جادو کو نگلنا شروع کیا تو سارا جادو ملیا میٹ ہو گیا، جادوگروں کو سمجھ میں آگیا کہ موسیؑ کے پاس جادو سے مارواء کوئی طاقت ہے، اور وہ فوراً موسیؑ کے رب پر ایمان لاکر بے اختیار اس کے حضور میں سجدہ ریز ہو گئے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس مقابلے میں حق نے تاریخی فتح پائی اور فرعون کو سخت خفت اٹھانی پڑی، اس نے محسوس کیا کہ اگر موسیؑ کی مقبولیت اسی طرح بڑھتی رہی، تو آگے چل کر اس کی حکومت کے لیے خطرہ بن جائے گی۔ موسیؑ سے کچھ کہنے کی جرأت تو تھی نہیں، اس لیے بنی اسرائیل کو بچوں کے قتل کی دھمکی دے ڈالی اور ان پر عبادت گاہوں میں نماز کی ادائیگی پر پابندی بھی عاید کر دی گئی۔ جو کچھ اوپر لکھا گیا وہ درحقیقت تمہید تھی، مقصد بنی اسرائیل کے وہ حالات پیش کرنے ہیں جو اس دھمکی کے بعد پیش آئے، واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل اس دھمکی سے سخت گھبرائے اور پریشان ہوئے، اس سراسیمگی میں بعض لوگوں نے تو حضرت موسیؑ سے یہ بھی کہہ دیا، مفہوم: ’’موسی ساری پریشانیاں تمہاری وجہ سے ہیں۔ تمہاری پیدائش کے موقع پر بھی ہم اس ناقابل برداشت عذاب سے گذرے اور آج پھر اسی مصیبت کا پھر سامنا ہے۔‘‘ (اعراف) بنی اسرائیل مصر میں ایک چھوٹی سے اقلیت کی شکل میں زندگی گذار رہے تھے، حکومت و اقتدار سے دور تھے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">فرعون کے لوگوں نے انہیں ہر طرح سے بے بس اور کم زور بنا رکھا تھا، ان پر جو بھی ستم کرنا چاہتے تھے، طاقت کے بل بوتے پر آسانی سے کرسکتے تھے اور کر رہے تھے، بنی اسرائیل فرعون کے قلمرو میں ناعزت و سکون سے رہ سکتے تھے نا کہیں بھاگ سکتے تھے، اور فرعون کی مستحکم اور مضبوط حکومت کو دیکھتے ہوئے یہ بھی نہیں لگتا تھا کہ یہ حکومت جلد یا بہ دیر ختم ہونے والی ہے۔ اس لیے بنی اسرائیل کی پریشانی بالکل بجا تھی، ان مایوس کن اور سخت پریشانی کے حالات میں ﷲ کے پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کیا اور فرمایا حضرت موسیؑ نے اپنی قوم سے کہا، مفہوم: ’’ﷲ سے مدد مانگو اور صبر سے کام لو، یقین رکھو! زمین ﷲ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اور آخری انجام پرہیز گاروں ہی کے حق میں ہوتا ہے۔‘‘ ان مشکلات و آزمائش اور خوف و ہراس کے ماحول میں جو فرعون کے قتل اولاد کے اعلان کے بعد پیدا ہُوا تھا حضرت موسیؑ نے اپنے اس مختصر مگر جامع خطاب میں بنی اسرائیل کی تسلی کے لیے چار باتیں ارشاد فرمائیں، جو قدرے وضاحت کے ساتھ پیش خدمت ہیں:</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">٭ پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ ﷲ سے مدد مانگو، حالات کہیں بھی پیدا ہوں اور کسی کے ذریعہ بھی پیدا ہوں ان کے پس پردہ ﷲ کی مشیت اور ارادہ کام کر رہا ہوتا ہے، اس کے ارادے اور مشیت کے بغیر کوئی پتہ بھی شاخ سے ٹوٹ کر زمین پر نہیں گرتا، لہٰذا جب سارے فیصلے اسی قادر مطلق کے حکم سے ہوتے ہیں، تو عقل و دانائی کی بات یہی ہے کہ اسی کے در کو کھٹکھٹایا جائے، اسی کی چوکھٹ پر پیشانی رگڑی جائے۔ اسی سے اپنی ناتوانی، بے بسی اور عاجزی کا اظہار کیا جائے، اور بار بار رجوع کر کے اس کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر مشکل حالات میں ﷲ سے مدد مانگنے اور اس سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے، اور ﷲ کے مقرب و نیک بندوں کے کئی واقعات نقل کر کے بتایا ہے کہ جب انہوں نے مشکل حالات میں ﷲ کو پکارا تو ﷲ نے کس طرح ان کی پکار سنی، اور کیسے اس کی رحمت نے ان کی فریاد رسی کی۔ ٭ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ صبر و ہمت سے کام لو، صبر اور ہمت ایک بڑی مضبوط ڈھال ہے، اس کے ذریعہ مشکل حالات میں اپنے وجود اور اپنے فکر و عقیدے پر باقی رہنا آسان ہوتا ہے، صبر یہ ہے کہ آدمی آزمائشوں کے دیکھ کر نہ گھبرائے نہ حواس باختہ ہو، بلکہ اپنے اعصاب پر قابو رکھے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مشکلات کو جھیلنے کے لیے اپنے ذہن کو تیار کرے، اور ناگواریوں کو ﷲ کے لیے گوارا کرتا رہے، اور صبر میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی فکر و عقیدے اور اپنے دین پر ثابت قدم رہے، خوف یا لالچ کی وجہ سے اس سے دست بردار نہ ہو جائے۔ جو بھی اس حقیقت پر ایمان رکھتا ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ اس کے مولی کی مشیت اور ارادے سے ہوتا ہے، اور جو بھی اس سچائی کو تسلیم کرتا ہے دین کی خاطر اور ﷲ کی رضا کے لیے جو بھی قربانی دی جائے، جو بھی نقصان اٹھانا پڑے، جو بھی قیمت چکانی پڑے، جو بھی غم جھیلنے پڑیں، اس پر ﷲ کی طرف سے اجر ملتا ہے، درجے بلند ہوتے ہیں اور گناہوں کی معافی ہوتی ہے، اس کے لیے ہر حال کو ﷲ کا ایک فیصلہ سمجھ کر گوارا کر لینا، اور ہر کٹھن گھڑی سے دین و ایمان کی سلامتی کے ساتھ اپنے کو نکال لینا آسان ہو جاتا ہے۔ ٭ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ یہ زمین ﷲ کی ہے، وہی جسے چاہتا ہے اس کا مالک اور حاکم بناتا ہے اور جسے چاہتا ہے حکومت اقتدار سے بے دخل کرتا ہے، وہ اگر کسی کو بے دخل کرنا چاہے تو مضبوط حکومتیں تار عنکبوت کی طرح بکھر جاتی ہیں، اور کل کے سرکش فرماں رواؤں کا شاہانہ جلال و طمطراق دیکھتے ہی دیکھتے سامان عبرت اور داستان پارینہ بن کر رہ جاتا ہے، یہ ایک ایسی سچائی ہے جو انسان کو مایوسی سے بچاتی ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس دل کو امید و عزم سے لبریز کرتی ہے، اور ظالموں کے سامنے سینہ سپر ہونے، اور ظالم کی مرضی کے خلاف اپنے موقف پر اڑ جانے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے، اس حقیقت کے اظہار کے ذریعہ حضرت موسیؑ نے بنی اسرائیل کو یہ پیغام دیا کہ فرعون جس کی بادشاہت کے کھونٹے بڑی مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیں، تم یہ بات دل سے نکال دو کہ وہ سدا اسی طرح باقی رہے گی، اور ہمیشہ تمہارے اوپر اس کا اختیار چلتا ہی رہے گا، زمین ﷲ کی ہے جب تک ﷲ کو فرعون کا رہنا منظور ہے وہ رہے گا، اور جس دن ﷲ کو کچھ اور منظور ہو گا تو یہ مضبوط بادشاہت اسی دن تہس نہس ہو جائے گی۔ غزوہ خندق کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے پیشین گوئی کی تھی کہ روم و ایران کی سلطنتیں میری امت کے قبضے میں آجائیں گی، تو منافقین اور کفار نے بڑا مذاق بنایا تھا کہ کھانے کو ہے نہیں، بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں، اور خوف کا عالم یہ ہے کہ رات دن ایک کر کے دشمنوں سے بچاؤ کے لیے خندق کھود رہے ہیں، حالات تو یہ ہیں اور خواب دیکھ رہے ہیں کہ قیصر و کسری کی سلطنتوں کے مالک بنیں گے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس موقع پر ﷲ تعالی نے آیت کریمہ نازل فرمائی، جس میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ ﷲ تعالی کی قدرت میں سب کچھ ہے، وہ جس طرح کائنات عالم میں دن کے اجالے کو تاریکی شب کی چادر سے ڈھانپ دیتا ہے، اور رات کی سیاہی کی جڑ سے صبح کی پو پھوڑ دیتا ہے، اسی طرح وہ انسانی دنیا میں حکومت و اقتدار میں بھی تبدیلیاں لا سکتا ہے، جب وہ کسی کو اقتدار دینا چاہے گا تو کوئی روک نہیں سکے گا، اور جب اقتدار کی کرسی اتارنا چاہے گا تو آدمی کی ہر تدبیر الٹی ہی پڑتی چلی جائے گی۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور چند ہی سالوں کے بعد ﷲ تعالیٰ نے بے کس و بے سہارا مسلمانوں کو قیصر و کسری کی سلطنت کا مالک بنا دیا، ﷲ تعالی نے فرمایا، مفہوم: ’’کہو اے ﷲ! اے اقتدار کے مالک! تُو جس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، اورجس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کر دیتا ہے۔ تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے، تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ اور تو ہی بے جان چیز میں جان دار کو برآمد کر لیتا ہے اور جان دار میں سے بے جان چیز نکال لاتا ہے، اورجس کو چاہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔،،</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ایک مومن اگر ظالم کی قوت و اقتدار پر نظر کرنے کے بہ جائے ﷲ کی قدرت اور اس کی کے ذریعہ لوگوں میں اچھے برے اور عروج و زوال کے دن ادلتے بدلتے رہنے کی سنت پر غور کرے اور اس پر یقین رکھے تو اس کے دل میں ظالم اور اس کے زوال کے بارے میں نہ تو کبھی مایوسی ہو گی اور نہ ہی وہ اس کے آگے خود سپردگی اور اپنے فکر و عقیدے سے برأت کے اظہار پر آمادہ ہو گا، بلکہ اس کے برعکس اس کے دل میں اپنے ایمان و عقیدے کے طاقتور دفاع کی روح پیدا ہو گی۔ ٭ چوتھی بات جس کی طرف حضرت موسیؑ نے بنی اسرائیل کو متوجہ کیا، وہ تقوی اور پرہیزگاری ہے، جو لوگ اپنی خوشی و غمی، امن و خوف، پسند و ناپسند ہر حال میں ﷲ سے ڈر تے ہیں، خوش گواری و ناگواری، اور نفع و نقصان ہر حال میں ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو بجا لاتے ہیں نیک انجام ہمیشہ انہی کا مقدر بنتا ہے۔ اس اچھے انجام کو آدمی کبھی دنیا میں بھی دیکھ لیتا ہے کہ ﷲ تعالیٰ اسے ظالموں کے ظلم سے نجات عطا فرما کر امن و اطمینان کی زندگی عطا کرتا ہے، جیسے فرعون کو ہلاک کر کے بنی اسرائیل کو اور کفار مکہ کے زور کو توڑ کر اہل ایمان کو ﷲ تعالیٰ نے امن و اطمینان سے نوازا تھا، اور اگر ﷲ کی کسی مصلحت کی وجہ سے دنیا میں یہ نیک انجام سامنے نہ بھی آئے تو آخرت میں تو یقینی ہے، اور ایک مومن کے لیے آخرت کی کام یابی سے بڑھ کر اور کوئی کام یابی نہیں ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">غور کیا جائے تو معلوم ہو گا آج مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی زندگی بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا مظلومیت اور بے بسی سے بہت ملتی جلتی ہے، حالات جس رخ پر تیزی سے دوڑ رہے ہیں وہ ظاہر بینوں کو مایوسی کی طرف دھکیلتا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ہم حضرت موسیؑ کے اس موثر وعظ سے تسلی حاصل کریں، اور حضرت نے اپنی قوم کو جن چار باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ہم بھی اس پر مضبوطی سے عمل پیرا ہوں، چناں چہ ہم صبر و ہمت سے کام لیں، ﷲ سے مدد مانگیں، اس پر بھروسا رکھیں اور اس سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں۔ جو ﷲ دن کو رات اور رات کودن میں بدلنے قادر ہے وہی خدا شر کے موجودہ حالات و واقعات سے خیر بھی پیدا کر سکتا ہے، اور سنگ دل ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر امن و امان، صلح و آشتی اخوت و بھائی چارہ اور باہمی محبت کا ماحول کو قائم کر سکتا ہے، جس میں آدمی عافیت کی زندگی جی سکے اور آزادی کے ساتھ اپنے رب کے احکام پر عمل پیرا ہوسکے۔ یہ چار باتیں ایسی ہیں جوہر شخص انفرادی طور پر بھی بہ آسانی انجام دے سکتا ہے، اس کو زندگی میں لانے کے لیے کسی لمبے چوڑے پروگرام اور وسائل کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔ ﷲ تعالیٰ امت کو امن ایمان اور سلامتی اور اسلام کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مفتی محمد اجمل قاسمی </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-83294344424447093272023-11-27T04:38:00.000-08:002023-11-27T04:38:32.662-08:00صبر و برداشت<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg6AGpPvBJrt7Ky3GnyEzEeIIubLxGnW7C4AFmRG8dVEqfcD5vAJmHGQaExlexAv0GZwWoXml1O6fjwKPvC-ue20NGSnImrxy7PkgNt3SCo2ggChSxCUTgL5dgSN4Kjttqy845V2tB6xZffzhjQOBmnih1iIyTFbKAbzY7F_jvYLQePGZnW63YQU6ogWuo/s5472/Islam%206.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3648" data-original-width="5472" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg6AGpPvBJrt7Ky3GnyEzEeIIubLxGnW7C4AFmRG8dVEqfcD5vAJmHGQaExlexAv0GZwWoXml1O6fjwKPvC-ue20NGSnImrxy7PkgNt3SCo2ggChSxCUTgL5dgSN4Kjttqy845V2tB6xZffzhjQOBmnih1iIyTFbKAbzY7F_jvYLQePGZnW63YQU6ogWuo/w400-h266/Islam%206.jpg" width="400" /></a></div>مصائب و آلام، مصیبتوں اور پریشانیوں پر شکوہ کو ترک کر دینا صبر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صبر کرنا مشکل کام ہے کیوں کہ اس میں مشقت اور کڑواہٹ پائی جاتی ہے۔ صبر کی اس تلخی کو ختم کرنے کے لیے ایک اور صبر کرنا پڑتا ہے جسے مصابرہ کہتے ہیں۔ جب بندہ مصابرہ کے درجے پر پہنچتا ہے تو پھر صبر کرنے میں بھی لذت محسوس کرتا ہے۔ اس کی مثال حضرت ایوبؑ اور حضرت ابراہیمؑ کا صبر ہے۔ صبر ایک عظیم نعمت ہے جو مقدر والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ صبر مقاماتِ دین میں سے اہم مقام ہے اور ﷲ تعالی کے ہدایت یافتہ بندوں کی منازل میں سے ایک منزل اور اولوالعزم کی خصلت ہے۔ خوش قسمت ہے وہ شخص جس نے تقوی کے ذریعے ہوائے نفس پر اور صبر کے ذریعے شہواتِ نفس پر قابو پا لیا۔ صبر کی اہمیت و افادیت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ ﷲ رب العزت نے اپنے ہاں اس کا بے حساب اجر رکھا ہے۔ آج کا انسان دین سے دوری کی وجہ سے رب تعالی کی حضوری، ایمان بالغیب یعنی مرنے کے بعد کی دنیا، قیامت، یومِ حساب اور جنت و دوزخ وغیرہ کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنا سب کچھ اس دنیا میں پورا کرنا چاہتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اگر ہم خالقِ کائنات کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس دنیا میں صبر سے کام لیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل خود بہ خود ہی حل ہو جائیں گے۔ کیوں کہ انسان معاشرے یا خاندان میں جس بھی حیثیت یا عہدے پر ہے، ضروری نہیں کہ وہاں سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہو جیسا وہ چاہتا ہے۔ جب کوئی کام انسان کی مرضی و منشا کے خلاف سرزد ہو تو یقیناً انسان غصے میں آتا ہے اور بعض اوقات غصے سے مغلوب ہو کر اس سے کچھ ایسی حرکات سرزد ہو جاتی ہیں جو اس کی شخصیت کو داغ دار بنا دیتی ہیں۔ گویا گھر کے ایک عام فرد سے لے کر معاشرے کے ایک اہم رکن تک اور کسی بھی ادارے کے ایک عام فرد سے لے کر سربراہ تک ہر شخص کو خلافِ طبع و خلافِ معمول امور کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر کام یاب اس شخص کو گردانا جاتا ہے جس کی پریشانیوں سے دوسرے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ مشکلات کو بھی ہنس کر برداشت کرنا جانتا ہے اور ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو صبر کی دولت سے لبریز ہو۔ صبر صرف مشکلات پر نہیں ہوتا بلکہ امورِ اطاعت و فرماں برداری میں بھی صبر ہوتا ہے۔ آج صبر کی اس اہمیت اور اس کی صداقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس معاشرے کو خوب صورت بنانے کے ساتھ اپنی دنیا و آخرت بھی سنوار سکیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjFSsCYP1CMQYwMgj-TjsMTClAjCCyuVGAf9RhyeTueKGyETg7xLwIcWfWuCrs-ybKyn99pYkBowbo48MmeqIQro10WFb5MAO5Rvk4TvAAFAeVJvxdLqI_rcM4vs0yiYC2KgdDLF2ClTCWNo1oyhm7N5-HxkrfXkCnyjwL-nE8IhT33CnydHFFl1cSjWaU/s7280/Islam%207.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="4853" data-original-width="7280" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjFSsCYP1CMQYwMgj-TjsMTClAjCCyuVGAf9RhyeTueKGyETg7xLwIcWfWuCrs-ybKyn99pYkBowbo48MmeqIQro10WFb5MAO5Rvk4TvAAFAeVJvxdLqI_rcM4vs0yiYC2KgdDLF2ClTCWNo1oyhm7N5-HxkrfXkCnyjwL-nE8IhT33CnydHFFl1cSjWaU/w400-h266/Islam%207.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">صبر: قرآن پاک کی روشنی میں <br />ﷲ رب العزت نے صبر سے مدد لینے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً ﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (سورۃالبقرہ) آزمائش پر صبر ﷲ تعالی کی بشارت کا ذریعہ ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو مختلف طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر ان مشکلات کو ﷲ تعالی کی رضا کے لیے برداشت کر لیا جائے تو ایسے صبر والوں کو اجر کی خوش خبری ﷲ خود دیتا ہے۔ ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے: ’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیبؐ) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیں۔ جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک! ہم بھی ﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ) سورہ رعد میں رب کی رضا جوئی کے لیے صبر کرنے والوں کو آخرت میں حسین گھر کی خوش خبری دی گئی ہے، مفہوم: ’’اور ہم نے اسے دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرمائی، اور بے شک! وہ آخرت میں (بھی) صالحین میں سے ہوں گے۔‘‘ سورہ الانبیاء میں ارشاد فرمایا: ’’اور اسمٰعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو بھی یاد فرمائیں، یہ سب صابر لوگ تھے۔‘‘ ﷲ تعالی نے سچے پرہیزگاروں اور شدائد و آفات میں صبر کرنے والوں پر صبر کی شرط لگائی اور صبر کے ذریعہ ہی ان کی صداقت و تقوی کو ثابت کیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">صبر: احادیث مبارکہ کی روشنی میں<br />حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی اپنے متعدد ارشادات میں صبر کی اہمیت و فضیلت کو واضح فرمایا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے، حضرت سعدؓ روایت کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: یارسول ﷲ ﷺ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کن کی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: انبیا ئے کرامؑ کی، پھر درجہ بہ درجہ ﷲ تعالی کے مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام و مرتبہ (یعنی ایمانی حالت) کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین اور ایمان میں مضبوط ہو تو آزمائش سخت ہوتی ہے، اگر دین اور ایمان میں کم زور ہو تو آزمائش اس کی دینی اور ایمانی حالت کے مطابق ہلکی ہوتی ہے۔ بندے پر یہ آزمائشیں ہمیشہ آتی رہتی ہیں حتی کہ (مصائب پر صبر کی وجہ سے اسے یوں پاک کر دیا جاتا ہے) وہ زمین پر اِس طرح چلتا ہے کہ اس پر گناہ کا کوئی بوجھ باقی نہیں رہتا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دل کا پھل<br />اولاد بڑی نعمت ہے، اولاد کے ساتھ انسانی زندگی کی رونق بحال ہو جاتی ہے اور گویا جینے کا مقصد مل جاتا ہے مگر جب کسی وجہ سے اولاد چھن جائے تو انسان حواس باختہ ہو جاتا ہے۔ اس مشکل وقت میں صبر کرنے والے کے بارے میں مسند احمد اور سنن ترمذی کی یہ روایت پیش ہے جس میں رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کسی کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو ﷲ تعالی فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے نہایت پیارے بیٹے کی روح قبض کر لی؟ وہ کہتے ہیں: جی ہاں۔ ﷲ تعالی فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا پھل قبض کیا؟ وہ عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔ ﷲ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے نے اس پر کیا کہا؟ وہ عرض کرتے ہیں: اس نے تیری حمد کی اور کہا: بے شک! ہم بھی ﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ ﷲ تعالی فرماتا ہے: اس کے لیے جنت میں ایک مکان بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد (تعریف والا گھر) رکھ دو۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">صبر کہنے کو تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا مشکل کام ہے۔ حضور نبی اکرمؐ نے آج کے دور کو مدِنظر رکھتے ہوئے صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: تمہارے بعد ایسے دن آنے والے ہیں جن میں صبر کرنا دہکتے کوئلے کو مٹھی میں پکڑنے کے مترادف ہے اور ایسے زمانے میں صبر کرنے والے کو اس جیسا عمل کرنے والے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا۔ دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے کہ صحابہؓ میں سے کسی نے پوچھا کہ پچاس اس کے زمانے کے یا ہمارے زمانے کے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں بلکہ آپ کے زمانے کے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا۔ حضرت عبدﷲ بن جعفرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ حضرت یاسرؓ، عمار بن یاسرؓ اور ام عمارؓ کے پاس سے گزرے، جب انہیں اذیت دی جا رہی تھی تو رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا :اے ابویاسر و اہلِ یاسر! صبر کرو، بے شک! آپ کی جزا اور بدلہ جنت ہے۔ (مسند احمد)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">امام قشیری رسالہ قشیریہ میں حضرت علیؓ کا قول نقل کرتے ہیں، آپؓ نے فرمایا: ’’ایمان میں صبر کا وہی مقام ہے جو بدن میں سر کا ہوتا ہے، بغیر سر کے جسم ہلاک ہو جاتا ہے۔ پھر آپؓ نے بہ آوازِ بلند فرمایا کہ جس کا صبر نہیں اس کا ایمان نہیں۔ صبر ایسی سواری ہے جو کبھی نہیں بھٹکتی۔‘‘ (امام غزالی، احیا ء علوم الدین) حضرت ابو علی الدقاق نے فرمایا: صابرین دونوں جہانوں میں عزت کے ساتھ کام یاب ہوئے کیوں کہ انہوں نے ﷲ تعالی کی معیت حاصل کر لی۔ بے شک! ﷲ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (ابن القیم، مدارج السالکین) حضرت ابو حامد بلخیؒ نے فرمایا: جس نے صبر پر صبر کیا (یعنی صبر کر کے اسے ظاہر بھی نہ ہونے دیا کہ وہ مصائب پر صبر کر رہا ہے) وہی صابر ہے نہ کہ وہ شخص جس نے صبر کیا اور (صبر کا اظہار کر کے) شکوہ بھی کر دیا۔ (امام شعرانی، الطبقات الکبری) صبر کی شرائط میں سے ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم کیسے صبر کریں گے، کس کے لیے صبر کریں گے اور صبر سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ صبر کے لیے ہمیں نیت کو درست کرنا اور اس میں اخلاص لانا ہو گا ورنہ ہمارے اور جانور کے صبر میں کوئی فرق نہیں ہو گا کیوں کہ اس پر جب مصیبت آ جاتی ہے تو وہ بھی برداشت کرتا ہے مگر اسے اس بات کا پتا نہیں ہوتا کہ ا س پر مصیبت کیوں نازل ہوئی اور اس سے کیسے نمٹنا ہے اور اس کا کیا فائدہ ہو گا۔<br />ﷲ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مولانا محمد طارق نعمان </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-23143464658975730152023-11-27T04:09:00.000-08:002023-11-27T04:09:08.118-08:00مسجد الحرام میں عمرہ کی ادائیگی کے لیے آسان دن اور وقت کیا ہے؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgwO7FUjoR22HNxGFkPDnCvTm0Ha-n5Y4pI94OdqJjsQ5-3nnC-64RWDb4JNlC4k30KKBf4l3pqsPQ0-w9FvvA3FvEfUupGsWLSh_bARD-MFT-M7L14i8ZUSZWgN2o2KiIWgufEGolEMKwbi35q5szdfP_6FvqBqeHMaAZErl_iL0KgjdYQpO20J8GxZro/s3963/Umrah%202.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2972" data-original-width="3963" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgwO7FUjoR22HNxGFkPDnCvTm0Ha-n5Y4pI94OdqJjsQ5-3nnC-64RWDb4JNlC4k30KKBf4l3pqsPQ0-w9FvvA3FvEfUupGsWLSh_bARD-MFT-M7L14i8ZUSZWgN2o2KiIWgufEGolEMKwbi35q5szdfP_6FvqBqeHMaAZErl_iL0KgjdYQpO20J8GxZro/w400-h300/Umrah%202.jpg" width="400" /></a></div>سعودی وزیر حج و عمرہ ڈاکٹر توفیق الربیعہ نے کہا ہے کہ مکہ مکرمہ میں ان دنوں موسم انتہائی خوشگوار ہے۔ سعودی وزیر ڈاکٹر توفیق الربیعہ کا کہنا ہے کہ عمرے کی ادائیگی کے لیے اتوار، منگل اور بدھ کو رش کم ہوتا ہے۔ ان کے مطابق عمرے کے لیے بہتر وقت صبح ساڑھے 7 سے ساڑھے 10 اور رات 11 سے 2 بجے کا ہوتا ہے۔ سعودی وزیر کا کہنا ہے کہ رش سے بچنے والے عمرہ زائرین ان اوقات میں پُرسکون طریقے سے عمرے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ بزرگ عمرہ زائرین سمیت ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ رش سے بچ کر بہت ہی احترام اور پُرسکون انداز میں عمرہ ادا کر سکے۔</h2><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-79601549939244529062023-11-26T05:47:00.000-08:002023-11-26T05:47:07.419-08:00توبہ و استغفار<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhnhbjlWjpljLEPFXnM4KTJHYk8I2NmV_-zARhLdsUXP8vCbZP80noGizscyNZA8GgtfRel8DvitrLh3QatQ9l6BJ9Xecps8tZ5-7omF_mVSC3ONNEdF5CMvldwinA5bH9Xvyh-mSV0WfCD_b-LMS-SQ1k1nSYCzJZiRMM9aw1Q0BuJtYsy0p-XVPytjZw/s6000/Islam%208.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="4000" data-original-width="6000" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhnhbjlWjpljLEPFXnM4KTJHYk8I2NmV_-zARhLdsUXP8vCbZP80noGizscyNZA8GgtfRel8DvitrLh3QatQ9l6BJ9Xecps8tZ5-7omF_mVSC3ONNEdF5CMvldwinA5bH9Xvyh-mSV0WfCD_b-LMS-SQ1k1nSYCzJZiRMM9aw1Q0BuJtYsy0p-XVPytjZw/w400-h266/Islam%208.jpg" width="400" /></a></div>حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’خدا کی قسم! میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ ﷲ تعالیٰ کے حضور میں توبہ اور استغفار کرتا ہوں۔‘‘ (رواہ البخاری) ﷲ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی، جلال و جبروت کے بارے میں جس بندے کو جس طرح کا شعور و احساس ہو گا وہ اپنے آپ کو اس درجہ ادائے حقوق عبدیت میں قصور وار سمجھے گا۔ آپ ﷺ بار بار اور مسلسل توبہ و استغفار کی طرف متوجہ رہتے تھے اور اس کا اظہار فرما کر دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کرتے اور تلقین فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اے لوگو! ﷲ کے حضور میں توبہ کرو میں خود دن میں سو، سو دفعہ اس کے حضور میں توبہ کرتا ہوں۔‘‘ یہ ستّر اور سو کی تعداد دراصل کثرت کو بیان کرنے کے لیے ہے اور قدیم عربی زبان کا عام محاورہ ہے ورنہ حضور ﷺ کے توبہ و استغفار کی تعداد یقیناً اس سے بہت زیادہ ہوتی تھی۔ یہ تو اس ذات گرامیؐ کا حال ہے جو ہیں ہی معصوم۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjAzJHsO_WZu4azW4BYx86L1XajzSNe32FLY42eRA3LPrbJrZTf_eJls6_34Xz3B7ZhIOowg0vod3gGXAiTfPDsFAE4EPR_jXMS34HVEojtjytwfYvj9tHso1C1rA1xMjkOxAy8JNg4IkDn0LYKt3JFHryJoOZggPdeRrHUB4hpGG0cVHtFfEI17e1yVdY/s4000/Islam%205.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2670" data-original-width="4000" height="268" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjAzJHsO_WZu4azW4BYx86L1XajzSNe32FLY42eRA3LPrbJrZTf_eJls6_34Xz3B7ZhIOowg0vod3gGXAiTfPDsFAE4EPR_jXMS34HVEojtjytwfYvj9tHso1C1rA1xMjkOxAy8JNg4IkDn0LYKt3JFHryJoOZggPdeRrHUB4hpGG0cVHtFfEI17e1yVdY/w400-h268/Islam%205.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دراصل اس طرح کی روایات سے امت کو تعلیم دینا مقصود ہے کہ ہمیں ہر حال میں ﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے کیوں کہ توبہ و استغفار نہ کرنے کی صورت میں گناہوں کی سیاہی رفتہ رفتہ انسان کے دل پر چھا جاتی ہے، اسی بناء پر ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ مومن بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے پھر اگر اس نے اس گناہ سے توبہ کی اور ﷲ تعالیٰ کے حضور میں معافی و بخشش کی التجا اور استدعا کی تو وہ سیاہ نقطہ زائل ہو کر قلب صاف ہو جاتا ہے اور اگر اس نے گناہ کے بعد توبہ و استغفار کے بہ جائے مزید گناہ کیے اور گناہوں کی وادی میں قدم بڑھائے تو دل کی وہ سیاہی اور بڑھ جاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہی وہ زنگ ہے جس کے بارے میں ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا، مفہوم: ’’ان لوگوں کی بدکاریوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ اور سیاہی آگئی ہے۔‘‘ اور کسی مسلمان کے لیے بلاشبہ یہ انتہائی بدبختی کی بات ہے کہ گناہوں کی ظلمت اس کے دل پر چھا جائے اور اس کے قلب میں اندھیرا ہو جائے۔ ﷲ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے۔ آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دراصل خطا اور لغزش آدمی کی فطرت میں داخل ہے، کوئی ابن آدم اس سے مستثنیٰ نہیں ہے لیکن وہ بندے بڑے اچھے اور خوش نصیب ہیں جو خطا و قصور اور گناہ کے بعد نادم ہو کر اپنے مالک کی طرف رجوع کرتے ہیں اور توبہ و استغفار کے ذریعہ اس کی رضا و رحمت حاصل کرتے ہیں، اسی کو سرکار دو عالم ﷺ نے ایک حدیث میں یوں فرمایا کہ ہر آدمی خطاکار ہے اور خطاکاروں میں وہ بہت اچھے ہیں جو مخلصانہ توبہ کریں اور ﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو جائیں۔ اس بنا پر ہم سب کو چاہیے کہ خود بھی توبہ و استغفار کریں اور دوسروں کو بھی توبہ و استغفار کی طرف متوجہ کریں تاکہ ہمارے گناہوں کی نحوست کی وجہ سے آج امت مسلمہ جن پریشانیوں اور تکلیفوں سے دوچار ہے وہ چاہے مہنگائی کی صورت میں ہوں، چاہے بے رحم حکم رانوں کی صورت میں ہوں یا بہت سے علاقوں میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے عذاب کی صورت میں ہوں یا یہود و نصاریٰ کے ہم پر تسلط کی صورت میں ہوں، ﷲ تعالیٰ توبہ و استغفار کی برکت سے اس طرح کی سب پریشانیوں اور تکلیفوں سے ہماری خلاصی کروا دیں گے۔<br />اﷲ تعالیٰ ہم سب کو توبہ و استغفار کرنے والا بنا دے۔ آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مولانا حافظ زبیر حسن </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-1748666640563375262023-10-24T04:36:00.002-07:002023-10-24T04:36:47.121-07:00مسجد نبویﷺ کے صحن میں دیو ہیکل چھتریاں کیسے کام کرتی ہیں؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhbBgSRN6mmBFGluni8kSjnOKXzDKNbTGdPfZFL486FNkPw-ObTsXX1bDjJ_dXiJhZwuEpRluwP4yzBso6kUR756kLKys9mojDuz66102EJ_XHB6-5pTCoG0Hy-ljkOOn9Ngy0PgDh8IO1Luq0ZKeldPoNV8ilV8XBwyXdwSyFPouy4HYBYB8P-5QVHulQ/s4000/Prophet%20Mosque%20Madinah%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3000" data-original-width="4000" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhbBgSRN6mmBFGluni8kSjnOKXzDKNbTGdPfZFL486FNkPw-ObTsXX1bDjJ_dXiJhZwuEpRluwP4yzBso6kUR756kLKys9mojDuz66102EJ_XHB6-5pTCoG0Hy-ljkOOn9Ngy0PgDh8IO1Luq0ZKeldPoNV8ilV8XBwyXdwSyFPouy4HYBYB8P-5QVHulQ/w400-h300/Prophet%20Mosque%20Madinah%203.jpg" width="400" /></a></div>مسجد نبویﷺ کے صحنوں میں خودکار نظام کے تحت کام کرنے والی چھتریاں طلوع آفتاب سے لیکر غروب آفتاب تک یہاں نماز اور عبادت کرنے والے زائرین کو سایہ راحت فراہم کرنے کا کام کرتی ہیں۔ ’’العربیہ‘‘ کے فلیگ شپ پروگرام ’من الحرمین‘ میں ان دیو ہیکل چھتریوں سے متعلق نمائندہ سلطان السلمی نے اپنی خصوصی ویڈیو رپورٹ میں بتایا ’’کہ مسجد نبوی میں لگائی گئی چھتریوں کے سائے میں 2 لاکھ 30 ہزار افراد نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ چھتریاں نمازیوں کو سورج کی تمازت اور بارش سے بچاتی ہیں۔ چالیس ٹن وزنی ایک چھتری 25 میٹر رقبے پر سایہ فگن رہتی ہے۔‘‘ انجینئرنگ پراجیکٹس کے اسسٹنٹ انڈر سیکرٹری انجینئر عبداللہ المحمدی نے العربیہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ’’مسجد نبوی کے صحن میں 250 چھتریاں لگائی گئی ہیں۔ ان کی اونچائی ایک دوسرے سے متختلف ہے۔ ایک چھتری دوسری سے بلند رکھی گئی ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj2l01CmXnuHuu7wkzBkcY9r6NB9GTxRXJ_j5oSJcXqwOfB-oV2kXi3ro8jNI5bcgM17L3TVV67gZBpLZxmZ-SfmneberI7DRdEaH0osQYJf2Tb88yBNhDaft3b8CX1WWpYp9XHOgtT4wMeZRcvcwMm0zuP30chAmi4tayh_KoTV3JkoP-D-m1rSTR-au8/s4000/Prophet%20Mosque%20Madinah%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3000" data-original-width="4000" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj2l01CmXnuHuu7wkzBkcY9r6NB9GTxRXJ_j5oSJcXqwOfB-oV2kXi3ro8jNI5bcgM17L3TVV67gZBpLZxmZ-SfmneberI7DRdEaH0osQYJf2Tb88yBNhDaft3b8CX1WWpYp9XHOgtT4wMeZRcvcwMm0zuP30chAmi4tayh_KoTV3JkoP-D-m1rSTR-au8/w400-h300/Prophet%20Mosque%20Madinah%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">نیچے والی چھتری کی بلندی 14 میٹر اور 40 سینٹی میٹر ہے جبکہ اوپر والی چھتری کی بلندی 15 میٹر اور 30 سینٹی میٹر ہے۔ بند حالت میں تمام چھتریوں کی بلندی 120 میٹر اور 70 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق مسجد نبوی کے صحنوں کی چھتریوں نے 140 ہزار مربع میٹر رقبے کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ انہیں کھولنے اور بند کرنے کے لیے خود کار نظام کام کرتا ہے۔ انجینئر عبداللہ المحمدی نے خودکار نظام کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ’’ان چھتریوں کو ایک خودکار نظام کے ذریعے مرکزی کنٹرول سے روم کھولا اور بند کیا جاتا ہے۔ یہ کنٹرول روم مسجد نبوی کے پارکنگ ایریا میں بنایا گیا ہے۔ ان چھتریوں کو طلوع آفتاب سے 15 منٹ پہلے کھولا اور غروب آفتاب سے 45 منٹ پہلے بند کر دیا جاتا ہے۔‘‘ یہ چھتریاں جیومیٹریکل شکل اور ڈیزائن کے اعتبار سے منفرد خصوصیات کی حامل ہیں۔ ہر چھتری کے اوپر آخر میں تاج اور نیزے کی شکل بنی ہوئی ہے۔ یہ شکل تانبے سے بنی ہوتی ہے۔ اس پر سونا بھی ملمع کیا گیا ہے۔ اسی لیے یہ اپنی شاندار چمک سے نمازیوں اور زائرین کی توجہ اپنی مبذول کر لیتی ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ العربیہ اردو</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-43273428034444935262023-10-24T04:18:00.003-07:002023-10-24T04:18:50.481-07:00حرم مکی میں مسعی (سعی کی کرنے کی جگہ) کی توسیع کا منصوبہ<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgSW29i71CdKLl7HZYZ-6kMBIHyGBtfU96qSnx1nnrXeESKK-18SrIFbBdLvqxr8F66RjjPDipxpQlrlduC9MY2d0phXOEjXCN9dGrCZ4Wk02W8aFrJUL0zbuUvl7qP764A7oMWQdiNDb0b9fYs1P8wS1hEM-7yTq4Gayms4Yv9KX5UF0WRIccQgN3hQWA/s4000/Safa%20and%20Marwah%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3000" data-original-width="4000" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgSW29i71CdKLl7HZYZ-6kMBIHyGBtfU96qSnx1nnrXeESKK-18SrIFbBdLvqxr8F66RjjPDipxpQlrlduC9MY2d0phXOEjXCN9dGrCZ4Wk02W8aFrJUL0zbuUvl7qP764A7oMWQdiNDb0b9fYs1P8wS1hEM-7yTq4Gayms4Yv9KX5UF0WRIccQgN3hQWA/w400-h300/Safa%20and%20Marwah%204.jpg" width="400" /></a></div>مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام میں مسعی (سعی کی کرنے کی جگہ) کے توسیعی منصوبے کے نتیجے میں اب اس کی کُل منزلوں کی تعداد 4 ہو گئی ہے جن کا مجموعی رقبہ 87 ہزار مربع میٹر سے تجاوز کر چکا ہے۔ منصوبے کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ "رواں سال رمضان المبارک میں مطاف کے میزانائن کو پُل کے ذریعے مسعی کے میزانائن سے ملا دیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ معذور افراد کے لیے داخل ہونے کے دو راستے ہیں۔ مغربی سمت سے آنے والوں کے لیے "جسر شبیکہ" اور جنوبی سمت سے آنے والوں کے لیے "جسر جیاد" ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے حرم شریف کی نئی توسیع کے نتیجے میں ایک گھنٹے کے اندر مجموعی طور پر 1 لاکھ 18 ہزار افراد سعی کرسکیں گے۔ مسعی کی بالائی منزلوں تک پہنچنے کے لیے خودکار متحرک زینوں اور لفٹوں کے علاوہ تین پُل بھی موجود ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjBwgQqamUTWPytizVNpjAtPee8_e1yFHxLuuqvXdiwEQI31PZPZxXQmop2R_h_Edp5eDWmYtrfn_WfOXOGGq2Jk6DL-8O9pPs_eXf0YLNuErkWmd_SOmU2W3LYYm6sngm60tj6yhY6wHtxmVck0h6RNHas9tm4oir8I4-__4gGHl_kGDI8YvTbbvH4wb4/s4000/Safa%20and%20Marwah%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3000" data-original-width="4000" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjBwgQqamUTWPytizVNpjAtPee8_e1yFHxLuuqvXdiwEQI31PZPZxXQmop2R_h_Edp5eDWmYtrfn_WfOXOGGq2Jk6DL-8O9pPs_eXf0YLNuErkWmd_SOmU2W3LYYm6sngm60tj6yhY6wHtxmVck0h6RNHas9tm4oir8I4-__4gGHl_kGDI8YvTbbvH4wb4/w400-h300/Safa%20and%20Marwah%203.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس سلسلے میں معتمرین نے مسعی کی نئی توسیع پر مسرت و افتخار کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ ایک بزرگ معتمر کے مطابق سابق فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دور سے موجودہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور تک ہونے والی توسیعات قابل تحسین ہیں۔ ایک دوسرے معتمر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صفا اور مروہ کے درمیان چار منزلہ مسعی نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اندر سمو لیا ہے اور حالیہ توسیع کے بعد معتمرین کو سو فی صد راحت اور آرام میسر آرہا ہے۔ مسعی کے منصوبے کی عمارت اپنی تمام منزلوں، سعی اور دیگر خدمات کے علاقوں سمیت مجموعی طور پر تقریبا 1 لاکھ 25 ہزار مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکام، اژدہام کو انتہائی حد تک کم کرنے اور مناسک کی ادائیگی کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنانے کی کس قدر خواہش رکھتے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ العربیہ اردو</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-64253436051218462662023-10-17T06:19:00.000-07:002023-10-17T06:19:09.314-07:00مقبول اعمال کی شرطِ اوّل<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgzJHOJbOcriD8DDJonBn6irS9l3YxJHusLF_JodeYym4pqxd-HW5pfe9QTvSwfQjaHkfORzXE_VEEMs_3fMb5ebxIykoCntcONbIhgcUnrpHIqJGcFGjzPc5IH3T2apUt1tb5Mt0tRXsHyEUHFnc6Ne1NZJP2RyxOW9ArpkmQeqm3smzTsYlswtF-EFkI/s3264/Islam%207.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2448" data-original-width="3264" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgzJHOJbOcriD8DDJonBn6irS9l3YxJHusLF_JodeYym4pqxd-HW5pfe9QTvSwfQjaHkfORzXE_VEEMs_3fMb5ebxIykoCntcONbIhgcUnrpHIqJGcFGjzPc5IH3T2apUt1tb5Mt0tRXsHyEUHFnc6Ne1NZJP2RyxOW9ArpkmQeqm3smzTsYlswtF-EFkI/w400-h300/Islam%207.jpg" width="400" /></a></div>ﷲ تبارک و تعالیٰ نے ابن آدم کی اصل کام یابی کے لیے ایمان اور عمل دونوں کو ضروری اور لازمی قرار دیا ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت اور اس سے ہر مسلمان کو اچھی طرح سے واقف ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، ایسے لوگوں کے لیے مختلف انعامات کے وعدے کیے گئے ہیں، جن میں سے بہت سے انعامات تو اس دنیا میں بھی مل جاتے ہیں جب کہ دوسرے بہت سے انعامات ﷲ تعالیٰ اپنے ان محبوب بندوں کو آخرت میں دیں گے۔ سب سے بڑی کام یابی یہ ہے کہ وہ آخرت میں جو اصل اور ہمیشہ کی زندگی ہے۔ ﷲ کی نعمتوں اور خصوصی فضل و عنایت کے حق دار قرار دیے جائیں گے اور انہیں اپنے کیے کا بھرپور بدلہ ملے گا۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات جس پر اسلام نے بہت زور دیا ہے اسے بھی یاد رکھنا چاہیے۔ بلکہ اس کے بغیر ہمارے اعمال پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں ہو گا اور وہ یہ ہے کہ ہمارے نیک اعمال میں اخلاص ہو، اور اخلاص کا مطلب یہی ہے کہ جو بھی نیک کام ہم کریں اسے فقط ﷲ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کریں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">کوئی بھی نیک عمل ریاکاری اور لوگوں کی نگاہ میں محترم بننے کے لیے کیا جا رہا ہو تو وقتی طور پر ہمیں اپنے مقاصد تو حاصل ہو جائیں گے مگر جو اس کا اصل مقصد یعنی اجر و ثواب اور عندﷲ مقبولیت ہمیں ہرگز حاصل نہیں ہو گی۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم : انسان کے تمام اعمال کا دار و مدار اس کی نیّت پر ہے اور آدمی کو اس کی نیّت کے مطابق ہی اجر ملے گا، پس جس شخص نے ﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت درحقیقت ﷲ اور رسولؐ کی طرف ہی ہوئی اورجس شخص نے کسی دنیا وی غرض یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہجرت کی تو عندﷲ اس کی ہجرت اسی کی طرف مانی جائے گی۔‘‘ مذکورہ حدیث پاک میں ہجرت کا ذکر ایک مثال کے طور پر کیا گیا ہے اور چوںکہ اسلام کی ابتدا میں یہ ایک بہترین عمل تھا اس لیے خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj4tIUUusOCFfO9FlEBlIiNrY0MpJnDmFyFANPCoE4C7f-yaJVwH-GEfIeyA4Uhiq5fRmGAh4FIb81W27laHc8tqiclvAGzD4exn67znBwXo2tnmzwkOtxdLc9Xc5G7fEh2iLARz9erLJv24fb8DxOYfeD5tGpHB3NFoqEeiNi4Q-ynrp0i9j7jJzScekU/s5472/Islam%208.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3648" data-original-width="5472" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj4tIUUusOCFfO9FlEBlIiNrY0MpJnDmFyFANPCoE4C7f-yaJVwH-GEfIeyA4Uhiq5fRmGAh4FIb81W27laHc8tqiclvAGzD4exn67znBwXo2tnmzwkOtxdLc9Xc5G7fEh2iLARz9erLJv24fb8DxOYfeD5tGpHB3NFoqEeiNi4Q-ynrp0i9j7jJzScekU/w400-h266/Islam%208.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس حدیث پاک میں نبی محترم ﷺ کا اصل میں یہ کہنا ہے کہ تمام مسلمانوں کے تمام نیک اعمال کے مقبول یا نامقبول ہونے کے لیے اصل بنیاد اس کی نیّت ہے، اگر نیّت درست ہو گی تو وہ عمل مقبول ہو گا اور اگر نیّت درست نہ ہو تو وہ عمل مقبول نہیں ہو گا۔ چاہے وہ عمل ظاہر میں صالح اور عمدہ ہی کیوں نہ لگے۔ یعنی ﷲ تعالیٰ کے نزدیک ظاہر کے ساتھ انسان کے باطن کی یک سوئی اور توجہ الی ﷲ بھی ضروری ہے اور اس کے بعد ہی انسان کا عمل اس لایق ہو گا کہ اس پر اجر و ثواب مرتب ہو۔ اس موقع پر ممکن ہے کسی شخص کے ذہن میں یہ غلط فہمی پیدا ہو جائے کہ اگر ﷲ تعالیٰ کے نزدیک کسی بھی عمل کے قبولیت کا دار و مدار نیّت پر ہے، تو اگر کوئی انسان کسی غلط عمل کو اگر اچھی نیّت سے کریں تو وہ درست ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص چوری کرتا ہے یا ڈاکا ڈالتا ہے اور اس کی سوچ اور نیّت یہ ہے کہ وہ چوری کیے ہوئے مال کو غریبوں، مسکینوں اور یتیموں میں تقسیم کروں گا، تو اس کا یہ عمل درست ہونا چاہیے؟</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس سلسلے میں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جو عمل قبیح اور بُرا ہے اس کے بُرا ہونے اور ﷲ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ہونے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں، بلکہ اگر کوئی شخص کسی بھی قبیح عمل کو اچھی نیّت سے کرے تو عین ممکن ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی مزید سخت پکڑ کا شکار ہوجائے، کیوں کہ یہ تو ﷲ تعالیٰ کے دین اور اس کے حکم کے ساتھ مذاق کرنے جیسا ہے۔ حدیث کی رُو سے اگر کوئی مسلمان پابندی کے ساتھ پنج وقتہ نمازیں پڑھتا ہے۔ نوافل و مستحبات کا بھی اہتمام کرتا ہے اور ایسا کرنے سے اس کی غرض یہ ہے کہ پاس پڑوس کے لوگ اسے اچھی نظروں سے دیکھیں اور اسے معاشرے میں وقار حاصل ہو تو یقیناً اس کی یہ نمازیں ضایع جائیں گی اور ان پر کوئی بھی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ بڑے سے بڑے عمل کے مقبول ہونے کے لیے بھی ہماری نیّت کا درست اور خالص ہونا لازمی ہے، اس کے بغیر عمل کرنا یا نہ کرنا دونوں برابر ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ایک طویل حدیث رسول مقبول ﷺ میں عملِ صالح کے اس اہم پہلو پر مزید تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ حدیث پاک مسلم شریف میں نقل کی گئی ہے اور اس میں ایسے تین لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جواس جہاں میں اپنی نیک اعمال کی وجہ سے بڑے مشہور معروف ہوں گے لیکن بہ روز قیامت میں ﷲ تعالیٰ انہیں جہنم میں ڈالنے کا حکم فرمائیں گے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں ایک وہ شخص ہو گا جو راہِ خدا میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا ہو گا۔ حساب کتاب کے دوران اسے پہلے دنیا میں اسے دی جانے والی نعمتیں یاد دلائی جائیں گی پھر پوچھا جائے گا کہ تم نے ﷲ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ تو وہ کہے گا کہ یا ﷲ میں نے تیری راہ میں جہاد کر کے اور اپنی جان قربان کر کے تیری نعمتوں کا حق ادا کیا۔ تو ﷲ کی طرف سے ارشاد ہو گا کہ تم جھوٹے ہو تم نے جہاد تو محض اس لیے کیا کہ دنیا کے لوگ تمہیں بڑا بہادر آدمی سمجھیں، پس دنیا میں تو تیری بہادری کا چرچا ہوتا رہا اور پھر اس شخص کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دوسرا شخص وہ عالم دین اور عالم قرآن ہو گا اس سے بھی اسی طرح کا سوال کیا جائے گا اور جواب میں کہے گا کہ خدایا! میں نے تیرے دین اور تیری کتاب کا علم حاصل کیا اور اسے لوگوں میں پھیلایا اور بے شمار لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دی، تو اسے کہا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم نے یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تمہیں عالم، قاری اور مولانا کہیں پس تمہیں دنیا میں تو یہ سب کہا گیا۔ اور پھر اسے بھی جہنّم میں ڈالنے کا حکم صادر ہو گا۔ اس کے بعد ایک تیسرا شخص پیش ہو گا، جس نے دنیا میں غریبوں، مسکینوں اور یتیموں پر اپنے مال و دولت خرچ کرتا ہو گا، ان کی ضرورتوں میں کام آیا ہو گا، ﷲ تعالیٰ جب اس سے دریافت کرے گا کہ میری نعمتوں کا حق کس طرح ادا کیا تو وہ اپنی سخاوت کے حوالے دے گا۔ جس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو، تم نے تو یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تمھیں سخی کہیں اور تمہاری سخاوت کا چرچا کیا جائے پس دنیا میں تو تمہاری خوب شہرت ہوچکی اور پھر اس شخص کو بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ان احادیث کے علاوہ قرآن مجید کی متعدد آیات اور دوسری بہت سی احادیث پاک میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان کوئی بھی نیک اعمال کریں تو صرف ﷲ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھیں۔ ﷲ کی رضا کے بغیر بڑے سے بڑا عمل بھی ﷲ تعالیٰ کے نزدیک کوئی وقعت اور اہمیت نہیں رکھتا۔ ان تمام ارشادات اور تعلیمات کی روشنی میں ہم مسلمانوں کو اپنے اعمال کا بہ غور جائزہ لینا ہو گا اور جو بھی نیک اعمال ہم کرتے ہیں ان کی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ آج کل بدقسمتی سے مسلمانوں کا رشتہ اپنے دین سے اور اعمالِ خیر سے مسلسل ختم ہوتا جارہا ہے اور جو بھی نیک اعمال کرتے ہیں، ان میں بھی ریاکاری، دوسروں کے سامنے اپنی اہمیت جتانے اور دوسروں کے سامنے اچھا بننے جیسی بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ سے کی جانے والی ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں اور ہماری ذلت و پستی کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جب تک کہ ہم اپنے حقیقی دین اسلام کی طرف مخلصانہ رجوع نہیں کریں گے اور اپنے اعمال کو درست کرنے کے ساتھ ان میں اخلاص پیدا نہیں کریں گے، اس وقت تک ﷲ کی رحمت اور اس کی خاص توجہ کا حصول مشکل ہے۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عنایت کابلگرامی </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-21196635002508398882023-10-17T04:48:00.000-07:002023-10-17T04:48:03.553-07:00بہتان تراشی کا عذاب<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjXZg5jyv-eqYPljIuA2QWpF54vTxrgDU-pR-eCVSLQI9LS-NvCBFR2asFlxGRTKDE-C0PIpBmdwU4E_okxK6yDHYrpA9bYyi9QD8UdAM3mG7ZKbt1Nic5-eQ-dakCbdscNpXyYiffcdgASgAbDiwbGkZ15hkekYI6gXv5ZV1Rv8v-hr7F8cwClmw16_Lg/s1800/Islam%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="1800" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjXZg5jyv-eqYPljIuA2QWpF54vTxrgDU-pR-eCVSLQI9LS-NvCBFR2asFlxGRTKDE-C0PIpBmdwU4E_okxK6yDHYrpA9bYyi9QD8UdAM3mG7ZKbt1Nic5-eQ-dakCbdscNpXyYiffcdgASgAbDiwbGkZ15hkekYI6gXv5ZV1Rv8v-hr7F8cwClmw16_Lg/w400-h266/Islam%203.jpg" width="400" /></a></div>کسی پر بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔ ایک روایت کا مفہوم ہے:<br />’’جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی (الزام لگایا، تہمت، یا جھوٹی بات منسوب کی) جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں، تو ﷲ اسے (الزام لگانے والے، تہمت لگانے والے، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا (وہ آخرت میں اِسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس حرکت سے (دنیا میں) باز آ جائے۔‘‘ (رک جائے، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن ہے) (مسند احمد، سنن ابی داؤد، مشکوۃ المصابیح ) کسی آدمی میں ایسی برائی بیان کرنا جو اس کے اندر نہیں یا کسی ایسے بُرے عمل کی اس کی طرف نسبت کرنا جو اس نے کیا ہی نہیں ہے، افترا اور بہتان کہلاتا ہے۔ مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے، تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔ اگر کوئی شخص کسی پر بغیر تحقیق و ثبوت الزام یا بہتان لگاتا ہے تو شرعاً یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ہمارے یہاں معاشرے کا مزاج بن گیا ہے کہ وہ الزام تراشی اور بہتان کو تیزی سے پھیلانے کا کام کرتے ہیں، اس میں ان کو ایک خاص لذت محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ شیطان ان کو اس کام پر ابھارتا ہے اور لایعنی باتوں اور کاموں میں مشغول کر دیتا ہے، شریعت کے نزدیک یہ عمل انتہائی بُرا، ناپسندیدہ اور انسانیت سے گری ہوئی بات ہے۔ اس معاملہ میں شریعت کا حکم دوٹوک اور واضح ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جہالت کی وجہ سے کچھ ایسا کر بیٹھو جو بعد میں تمہارے لیے ندامت کا سبب بن جائے۔ ہمیں چاہیے کہ اس بات کے پیچھے نہ پڑیں جس کا ہمیں علم نہیں، بے شک! کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مسلمانوں کی بدگوئی نہ کیا کرو اور نہ ان کے عیوب کے پیچھے پڑا کرو، جو شخص ان کے عیوب کے درپے ہو گا، ﷲ اس کے عیوب کے درپے ہوں گے، اور ﷲ جس کے عیوب کے درپے ہوں گے تو اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کر دیں گے۔‘‘ ( ابو داؤد)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiO1TwEiEPFK1jlYIn5oVagQrvyggBeCFJFd-zgRf5xy0mKdb6yCQ_NNCSxnR9oAN9XLXnf4iRd1W1FXzh-Ka9baZbwgV-SbhVR9yI3oQNEptA0wRIQ4WflXGlKEXmZD1BOpVoNL_4CObTpgb3Gedpt7DRK-bAxtMgCYq07Hra8ytElE_0wC_ZxrzrzEtM/s3984/Islam%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2656" data-original-width="3984" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiO1TwEiEPFK1jlYIn5oVagQrvyggBeCFJFd-zgRf5xy0mKdb6yCQ_NNCSxnR9oAN9XLXnf4iRd1W1FXzh-Ka9baZbwgV-SbhVR9yI3oQNEptA0wRIQ4WflXGlKEXmZD1BOpVoNL_4CObTpgb3Gedpt7DRK-bAxtMgCYq07Hra8ytElE_0wC_ZxrzrzEtM/w400-h266/Islam%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">تہمت کا تعلق کسی کی عزت و آبرو سے ہو تو دنیا و آخرت میں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے، معاشرہ میں تہمت لگانا لوگوں کے معمول کا حصہ بن گیا ہے، اس میں بدگمانی عام ہو جاتی ہے، جو خود ایک گناہ ہے، تجسس کا مزاج پیدا ہو جاتا ہے، جس سے قرآن کریم میں منع کیا گیا ہے، تہمت اور بہتان کو پھیلانے کی وجہ سے غیبت کا بھی صدور ہوتا ہے۔ جسے اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے، اس بُرے عمل کی وجہ سے اعتماد میں کمی آتی ہے اور لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں، گویا تہمت ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو بے شمار گناہوں میں مبتلا کرتی ہے، اس لیے اس سے حد درجہ بچنے کی ضرورت ہے۔ آج کل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا نے اپنی جگہ بنا لی ہے، پہلے خبروں کی ترسیل ایڈیٹر کی مرضی پر منحصر ہوتی تھی، وہ اس کو جانچتے، پرکھتے اور سوچ سمجھ کر شایع کرتے تھے کہ کیا بات حقیقی اور معاشرے کے لیے درست ہے اور کیا نہیں، لیکن سوشل میڈیا نے لکھنے والے کو آزاد کر دیا ہے، جو چاہے لکھے اور جس پر چاہے کیچڑ اچھال دے، پھر اس پر بحث شروع ہوتی ہے اور ایسی ایسی بدکلامی اور ایسے ایسے نامناسب نکتے پوسٹ کیے جانے لگتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’جو لوگ بدکاری کا چرچا چاہتے ہیں ایمان والوں میں سے، ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے، ﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ (النور) شریعت میں عزت و آبرو پر تہمت کے معاملہ میں شہادت کے بھی اصول سخت ہیں۔ ابُوداؤد شریف کی روایت ہے کہ جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں تو ﷲ اسے دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا۔ ان آیات و روایات کا حاصل یہ ہے کہ صرف شبہہ کی بنیاد پر کسی کو کوئی شخص طعنہ نہیں دے سکتا، اب اگر کسی شخص سے ان امور میں کوتاہی ہو رہی ہے تو اس کو سمجھایا جائے گا، مگر اسے سرِعام رسوا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اور بغیر ثبوت شرعی کے کسی کے بارے میں کوئی بات نہیں پھیلانا چاہیے۔ شریعت کی منشاء یہ ہے کہ کوئی شخص بغیر ثبوت شرعی کے کسی پر الزام یا تہمت نہ لگائے، اگر ایسا کرتا ہے تو اس کی سزا بھی حکومت کی طرف سے ملنی چاہیے، گو یہ سزا ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کے بعد دی جاسکے گی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">کیوں کہ اصل معاملہ اس شخص کا ہے جس پر تہمت لگائی گئی ہے، وہ اگر تہمت لگانے والے پر کوئی دعویٰ نہیں کرتا تو تہمت لگانے والا سزا سے محفوظ رہے گا۔ اﷲ رب العزت نے ہدایت دی کہ افواہ سنی سنائی باتوں کو بنا تحقیق زبان سے نکالنا جائز نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایسی خبروں کے سننے کے بعد مسلمانوں کا کیا رد عمل ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے بارے میں حسن ظن کی تاکید کی گئی ہے، کسی انسان پر بغیر کسی شرعی دلیل کے الزام لگانا بہتان ہے۔ جہاں ثبوت نہ ہو وہاں اس طرح کی بے حیائی کی خبروں کو شہرت دینا جس کا مشاہدہ آج کل سوشل میڈیا پر روزانہ ہوتا ہے، سنگین گناہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے، قرآن کریم میں بہتان سے متعلق آیات و احکام کا تعلق خاص واقعہ سے ہے، لیکن اس میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں وہ عام ہیں، کیوں کہ بعض مخصوص آیتوں کو چھوڑ کر احکام شان نزول کے ساتھ خاص نہیں ہوتے بل کہ حکم عام ہوتا ہے۔ اس لیے واقعہ افک کی وجہ سے جو احکام نازل ہوئے وہ بھی تہمت و بہتان کے باب میں عام ہوں گے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">تہمت کے ایک جملے اور ذرا سی بات کی وجہ سے عبرت ناک انجام ہو سکتا ہے۔ کسی پر بہتان لگانا ﷲ تعالیٰ اس کے رسول ﷺ اور ملائکہ مقربین کی ناراضی کا سبب ہے۔ لوگوں پر بہتان لگانے والے کو معاشرے میں ناپسندیدہ اور بے وقعت سمجھا جاتا ہے۔ یہ عبرت ناک واقعہ ان لوگوں کو نصیحت کے لیے کافی ہونا چاہیے، جو آج کل سوشل میڈیا کو علم اور ترقی کے استعمال کے بہ جائے، کسی مرد کی، کسی بھی نامحرم عورت کے ساتھ تصویریں جوڑتے ہیں، اس پر گانے لگا دیتے ہیں، دیکھنے والے لطف اندوز ہوتے ہیں، آگے اسے پھیلایا جاتا ہے، اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ہوتی کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ مفہوم: ’’اور جو شخص کوئی گناہ کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے، پھر ﷲ سے معافی مانگ لے تو وہ ﷲ کو بہت بخشنے والا، بڑا مہربان پائے گا۔‘‘ (سورۃ النساء) اس آیت کی روشنی میں، ہم سب کو توبہ کرنی چاہیے، دانستہ یا نادانستہ ہم سے یہ گناہ ہو گیا ہے تو ﷲ رب العزت سے سچے دل سے معافی مانگنی چاہیے اور آئندہ ایسی باتوں کو پھیلانے کا سبب نہ بننے کی کوشش کی جائے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عالیہ اظہر </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-74846378813285559182023-09-04T05:46:00.002-07:002023-09-04T05:46:59.902-07:00ڈپریشن سے نکلنے کا طریقہ<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhrI6TudaVRt1TenFpPVaQHmgAr7HoqY2EL5cQw_lt7G3lmPUiW9_UE_wofJAQz54Wn7AG8HauKly-5755LE1UxXTPhjkkFDICDOOSX6G6f6UY883ndLztNaZFvYu9ypmPxLfNAy6I77R5TBu1xES-byoZH00n-L0W5M8ZQNJUh7xhWeNg1_VCGlaYH44A/s6000/Depression%20care%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="4000" data-original-width="6000" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhrI6TudaVRt1TenFpPVaQHmgAr7HoqY2EL5cQw_lt7G3lmPUiW9_UE_wofJAQz54Wn7AG8HauKly-5755LE1UxXTPhjkkFDICDOOSX6G6f6UY883ndLztNaZFvYu9ypmPxLfNAy6I77R5TBu1xES-byoZH00n-L0W5M8ZQNJUh7xhWeNg1_VCGlaYH44A/w400-h266/Depression%20care%203.jpg" width="400" /></a></div>چند دن قبل چلتے چلتے ایک آیت میرے کانوں سے ٹکرائی اور میں سکتے میں چلا گیا‘ یہ سورۃ الاعراف کی آیت 204 تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’جب قرآن پڑھا جائے تواسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ اس آیت میں کوئی ایسی کشش تھی جس نے مجھے بے بس کر دیا اور میں کئی دن غور سے سنو‘ خاموش ہو جاؤ اور رحم کیا جائے کے کمبی نیشن پر غور کرتا رہا‘ یہ کامیابی کی شان دار تکون ہے‘ انسان بے شک جب تک کوئی چیز خاموشی سے‘ غور سے نہیں سنتا تو وہ بات اس وقت تک اس کی سمجھ میں نہیں آتی اور وہ بات یا وہ چیز جب تک سمجھ نہیں آتی انسان پر اس وقت تک ﷲ کا رحم نہیں ہوتا‘ میں نے اس کے بعد عادت بنا لی‘ میں روزانہ صبح اٹھنے کے بعد دس پندرہ منٹ قرآن مجید اور اس کا ترجمہ سنتا ہوں اور اس کے بعد ﷲ کا رحم اور کرم مانگتا ہوں اور اس کی بخشی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں۔ قرآن مجید ﷲ تعالیٰ کا انسان پر بے انتہا کرم ہے لیکن آپ یقین کریں سورۃ رحمن دنیا کی سب سے بڑی اینٹی ٹینشن‘ اینٹی ڈپریشن اور اینٹی اینگزائٹی میڈیسن ہے‘ میرا دعویٰ ہے آپ اینگزائٹی‘ ڈپریشن اور ٹینشن کے خواہ کتنے ہی بڑے مریض کیوں نہ ہوں آپ بس کسی آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر آنکھیں بند کریں اور سورۃ رحمن کی تلاوت اور ترجمہ سنیں‘ آپ ان شاء ﷲ چند دنوں میں ڈاکٹرز اور ادویات کی محتاجی سے نکل آئیں گے‘ بھارت میں میرا ایک سکھ دوست ہے‘ یہ پچھلے دنوں کاروباری مسائل کی وجہ سے بہت پریشان تھا‘ اسے دو دو دن نیند نہیں آتی تھی‘ اس نے مجھ سے مشورہ کیا اور میں نے اسے سورۃ رحمن کا لنک بھجوا دیا‘ اس نے میرا دل رکھنے کے لیے تلاوت سننا شروع کر دی.</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">چوتھے دن اس کا فون آیا اور وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہا تھا‘ اس کا کہنا تھا جاوید جی میری ساری پریشانیاں ختم ہو چکی ہیں‘ میں سارا سارا دن اپنے رب کی بلیسنگز (Blessings) گنتا رہتا ہوں‘ صبح سے شام ہو جاتی ہے مگر ﷲ کی بلیسنگز کی فہرست مکمل نہیں ہوتی‘ اس کا کہنا تھا میں نے کل رب کی نعمتوں اور اپنے مسائل کی فہرست بنائی تو آپ یقین کرو رب کی مہربانیاں پہاڑ اور میرے مسائل چٹکی برابر تھے اور یہ مسائل بھی میرے اپنے پیدا کیے ہوئے تھے‘ قدرت کا ان میں کوئی قصور نہیں تھا‘ میں نے سکھ دوست سے کہا ’’تم بس اسی طرح اپنے اور ہمارے مولویوں سے بچ بچا کر قرآن سنتے رہا کرو‘ تمہیں کسی ڈاکٹر اور کسی دوا کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور یہ اب روز صبح آدھ گھنٹہ تلاوت اور ترجمہ سنتا ہے اور پھر گردوار ے میں جا کر میرے لیے دعا کرتا ہے۔ میں ایک غیر مذہبی‘ لبرل اور پریکٹیکل انسان ہوں‘ میں جھاڑ پھونک اور وظیفوں کا قائل نہیں ہوں‘ میں نے قرآن مجید بھی صرف ترجمے کی شکل میں پڑھا ہے‘ مذہب کا علم بھی احادیث کی چند کتابوں‘ تاریخ اور سیاحت تک محدود ہے لہٰذا میں عقیدت کا قائل نہیں ہوں مگر آپ یقین کریں سورۃ رحمن کے اثرات نے مجھے حیران کر دیا‘ میں روز جب بھی ’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘ سنتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور میں اپنے اللہ کی نعمتیں گنتا جاتا اور روتا جاتا ہوں اور آخر میں نئے جذبے اور نئے ولولے کے ساتھ اٹھ بیٹھتا ہوں‘ آپ بھی کسی دن ذرا ﷲ کی نعمتیں گنیں‘آپ کے حالات بھی بدل جائیں گے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEihMpdSPThlFp12uxTWkoKkJzEP4XHz8Bujju-u7EW35nsugi7jh_NT4UY8dZAigS_IJ-NsfiUfPccCSCcDQJqeGBIOjWjzHNqx89VfM6154fLoWYjwVnoAMcgXD8nVpvwJrPdaKa4ES30k5uHZoPk--Xb4TR7Ma_Jj3nf2gJ7GglKDAwwrMj9btP8lQ3g/s4592/Depression%20care%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3448" data-original-width="4592" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEihMpdSPThlFp12uxTWkoKkJzEP4XHz8Bujju-u7EW35nsugi7jh_NT4UY8dZAigS_IJ-NsfiUfPccCSCcDQJqeGBIOjWjzHNqx89VfM6154fLoWYjwVnoAMcgXD8nVpvwJrPdaKa4ES30k5uHZoPk--Xb4TR7Ma_Jj3nf2gJ7GglKDAwwrMj9btP8lQ3g/w400-h300/Depression%20care%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دنیا کے 75 فیصد مرنے والے لوگوں کو صبح نصیب نہیں ہوتی‘ یہ رات بستر پر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں جب کہ ہم آج بھی اپنے بستر سے اٹھ رہے ہیں‘ کیا یہ ﷲ کا رحم نہیں؟ دنیا میں 24 کروڑ لوگ سانس کی بیماریوں کا شکار ہیں‘ ان کے پھیپھڑے کام نہیں کرتے‘ یہ ﷲ کی بخشی آکسیجن سے لطف نہیں لے سکتے جب کہ ہمارے پھیپھڑے دن رات دونوں اوقات میں آکسیجن کھینچتے بھی ہیں اور باہر بھی پھینکتے ہیں‘ کیا یہ ﷲ کا رحم نہیں؟ دنیا کے 27 فیصد لوگوں کے پاس چھت اور بستر نہیں جب کہ آدھی دنیا کرائے کے گھروں‘ جھونپڑ پٹیوں‘ ٹینٹوں‘ فٹ پاتھوں‘ پلوں‘ قبرستانوں اور غاروں میں رہتی ہے جب کہ ہم اپنے بستر اور اپنی چھت کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں‘ ہمارے پاس تکیے‘ گدے اور چادریں بھی ہیں اور ہمارے فرش پر قالین بھی بچھے ہیں‘ کیا یہ اس کا رحم نہیں؟ دنیا کی 60 فیصد آبادی کے پاس اپنا ٹوائلٹ‘ اپنا باتھ روم اور صاف پانی کا اپنا ذخیرہ نہیں جب کہ ہم روزانہ ٹونٹی کھول کر گیلنوں کے حساب سے میٹھا اور صاف پانی ضایع کرتے ہیں اور ہمیں اس پر ملال بھی نہیں ہوتا‘ کیا یہ بھی ﷲ کا رحم نہیں؟ دنیا کی 65 فیصد آبادی تین وقت کھانا افورڈ نہیں کر سکتی‘ لوگ 24 گھنٹے میں ایک وقت کھانا کھاتے ہیں اور انھیں اپنے اگلے کھانے کا یقین نہیں ہوتا جب کہ ہم ’’فوڈ پانڈا‘‘ پر اپنی مرضی کے تین چار کھانے آرڈر کرتے ہیں‘ تھوڑا تھوڑا چکھتے ہیں اور باقی کتے بلیوں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں‘ کیا یہ ﷲ کا رحم نہیں؟ دنیا کی 65 فیصد آبادی کے پاس اپنی سواری نہیں‘ لوگ سارا سارا دن بس‘ وین‘ موٹر سائیکل اور گدھے گھوڑے کا انتظار کرتے رہتے ہیں جب کہ ہمارے پاس اپنی سواری بھی ہے اور ہم اس میں پٹرول بھی ڈلوا لیتے ہیں‘ کیا یہ ﷲ کا رحم نہیں؟</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دنیا کے 42 فیصد بچے تعلیم اور علاج سے محروم ہیں‘ لوگ اپنے ٹوٹے ہوئے بازو ہاتھ میں اٹھا کر ڈاکٹر تلاش کرتے رہتے ہیں‘ مائیں فٹ پاتھوں اور رکشوں میں بچوں کو جنم دیتی ہیں‘ خود بھی مر جاتی ہیں اور ان کے بچے بھی‘ لوگ ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہیں اور آٹھ ہزار روپے کا ٹیکا نہیں خرید سکتے‘ پاکستان میں 8 فیصد لوگ بلڈ پریشر کے مریض ہیں‘ شوگر‘ دل کے امراض‘ کینسر‘ گردوں کے ڈائیلائسز اور جوڑوں کے درد نے کروڑوں لوگوں کی زندگی عذاب کر رکھی ہے‘ دنیا کی ایک ارب آبادی سن نہیں سکتی اگر سن لے تو دیکھ نہیں سکتی‘ دیکھ لے تو بول نہیں سکتی‘ دیکھ‘ سن اور بول لے تو ہاتھوں اور ٹانگوں کا رعشہ کنٹرول نہیں کر سکتی اور اگر یہ سب کچھ بھی کر لے تو یہ ریڑھ کی ہڈی‘ مہروں میں درد‘ جوڑوں میں اکڑاؤ‘ معدے کی تکلیف یا پھر پیشاب میں تعطل کے عارضے میں مبتلا ہے جب کہ ہم کم و بیش ان تمام تکلیفوں سے بچے ہوئے ہیں اور ہم اگر ان میں مبتلا بھی ہیں تو بھی ہم علاج افورڈ کر سکتے ہیں۔ دنیا میں اربوں لوگ اپنی تعلیم پوری نہیں کر پاتے‘ یہ اسکول نہیں جا سکتے یا پھر یہ مالی حالات کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ دنیا میں اربوں لوگ خالی جیب پھرتے ہیں‘ ان کے پاس بینک بیلنس‘ سیونگز اور پلاٹس نہیں ہیں اور یہ مستقل روزگار سے بھی محروم ہیں‘ یہ روزی کے لیے روز نکلتے ہیں اور خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں جب کہ ہم چیک سائن کر سکتے ہیں یا اے ٹی ایم سے رقم نکال لیتے ہیں اور کیا یہ ﷲ کا رحم نہیں اور کیا ہم نے کبھی ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کیا؟۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ہم انسان بہت تھوڑ دِلے‘ بہت ہی چول ہیں‘ ہمیں اپنی انگلی کی چھوٹی سی چوٹ فوراً نظر آ جاتی ہے لیکن ہم ہاتھ‘ بازو اور پورے جسم کی نعمت بھول جاتے ہیں‘ ہم ﷲ کے اس رحم کو بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں جس کے ذریعے ہماری چوٹ کو شفاء اور درد سے چھٹکارا ملتا ہے‘ ہمیں ہماری عینک تکلیف دیتی ہے لیکن ہمیں آنکھوں کا نور نظر نہیں آتا‘ ہمیں دیوار کی سیم اور ہاتھوں کے نشان ڈسٹرب کر دیتے ہیں لیکن ہم دیوار‘ فرش اور چھت کی نعمت بھی بھول جاتے ہیں اور ہمیں دیوار کے پیچھے کوکتی کوئل‘ چہچہاتی چڑیا اور اڑتے کبوتر نظر نہیں آتے‘ ہم اپنی کوتاہ فہمی کے پردے میں چھپ کر آسمان کے نیلے پن‘ بہتے پانی کے سرگم‘ کھلتے پھولوں کے رنگ اور سبز گھاس کے شیڈز کو بھول جاتے ہیں‘ ہم روز مہنگائی کا رونا روتے ہیں۔ ہم روز سیاسی افراتفری کا ماتم کرتے ہیں اور ہم روز زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے پر غم زدہ ہوتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں اﷲ تعالیٰ نے مہنگائی کے باوجود ہمیں قوت خرید دے رکھی ہے‘ ہم زیادہ نہیں کم ہی سہی مگر ہم خرید سکتے ہیں‘ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں ہم اول نہیں آئے مگر ہم فیل بھی نہیں ہوئے‘ ملک میں سیاسی افراتفری ہے لیکن ہم اس کے باوجود ایک ملک کے شہری ہیں اور ہمارے پاس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی ہے جب کہ دنیا میں اس وقت بھی 12 کروڑ لوگ مہاجر ہیں اور ان کے پاس کسی ملک کی شہریت اور شناخت نہیں‘ بے شک ہماری عدالتیں لڑ رہی ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پارلیمنٹ ربڑا سٹیمپ ہے اور ملک میں کوئی مستحکم معاشی پالیسی نہیں لیکن اس کے باوجود انڈسٹری بھی چل رہی ہے‘ بجلی اور گیس بھی موجود ہے اور ہماری ایک پارلیمنٹ‘ ایک حکومت اور ایک سپریم کورٹ بھی ہے جب کہ دنیا کے کروڑوں لوگ آج 2023 میں بھی ان نعمتوں سے محروم ہیں لہٰذا کیا یہ بھی ﷲ کا خصوصی کرم نہیں؟ آپ یقین کریں ہم ﷲ کے پسندیدہ ترین اور رحم یافتہ ترین لوگ ہیں‘ ﷲ اگر ہمیں 2023 کے بجائے 1923میں پیدا کر دیتا تو ہم آج کی 76 فیصد نعمتوں سے محروم ہوتے‘ ہمارے پاس اسمارٹ فون سے لے کر انسولین تک 26 ہزار نعمتیں نہ ہوتیں‘ ہم آج کے زمانے میں موجود ہیں۔ یہ ﷲ کا ہم پر خصوصی کرم ہے لیکن ہم اس کے باوجود اداس‘ پریشان اور ڈپریس ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم ناشکرے ہیں اور اﷲ تعالی ناشکروں سے اپنی سب سے بڑی نعمت سکون چھین لیتا ہے لہٰذا میری درخواست ہے آپ روز سورۃ رحمن سنا کریں‘ ﷲ کی دی ہوئی نعمتوں کی فہرست بنایا کریں اور شکر ادا کیا کریں‘ ﷲ تعالیٰ جواب میں آپ کو اطمینان کی نعمت واپس کر دے گا‘ آپ ڈپریشن سے نکل آئیں گے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جاوید چوہدری </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-3136948047742422132023-05-22T01:31:00.000-07:002023-05-22T01:31:28.913-07:00 حجاج کرام کے لیے مفید مشورے<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhG10FvT3yUQ-PJyfygii1pzCb3CcDsl19I1UyKXKk-SRw9_f6a4JdE9Zd1sywPuVa-5vXZXdPHs21RAsFgyE4BX7X0DFQ550UsdglkdVYqKI8rv3YofDgZiU-lL5E18GVsmK3LgnB9rBggfQgRoEfJdQtEzAT_gH7pIM1K7iTJAEriIDVt4I8D2rfC/s670/Hajj%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="413" data-original-width="670" height="246" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhG10FvT3yUQ-PJyfygii1pzCb3CcDsl19I1UyKXKk-SRw9_f6a4JdE9Zd1sywPuVa-5vXZXdPHs21RAsFgyE4BX7X0DFQ550UsdglkdVYqKI8rv3YofDgZiU-lL5E18GVsmK3LgnB9rBggfQgRoEfJdQtEzAT_gH7pIM1K7iTJAEriIDVt4I8D2rfC/w400-h246/Hajj%204.jpg" width="400" /></a></div>اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حج پیدل چلنے کا نام ہے جتنی آپ میں پیدل چلنے کی استطاعت مضبوط ومستحکم ہو گی آپ اسی قدر سفر حج میں کامیاب وکامران رہیں گے۔ اس لیے ممکن ہو تو ابھی سے پیدل چلنے کی عادت ڈالیے تاکہ وقت ضرورت پریشانی نہ ہو۔ دن میں نکلتے وقت چھتری کا استعمال کریں اور مشروبات اور پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سفر حج و عمرہ پر روانگی سے پہلے اور دوران سفر صحت کا بہت خیال رکھیں ـ پہلے سے ہلکی پھلکی ورزش کرتے رہیں ـ تیز چلنے اور دوڑنے کی عادت ڈالیں، روانگی سے پہلے ڈاکٹر سے اپنا طبی معائنہ کرائیں (یہ مشورہ آپ کی حج درخواست میں بھی درج ہے) ڈاکٹر کا نسخہ اور ضروری ٹیسٹ کا نتیجہ فوٹو کاپی کر کے اپنے پاس رکھ لیں ـ ڈاکٹر نے جو دوائی تجویز کی ہے، سارے سفر کی مدت کے لیے ساتھ لے جائیں ـ حج میڈیکل مشن پر بھی ادویات دستیاب ہونگی تاہم کمپنی/نام مختلف ہو سکتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر ہرقسم کی دوائی سعودی عرب میں مل سکتی ہے لیکن ڈاکٹر کا نسخہ دکھانا ہو گا ـ نیز وہاں قیمتیں زیادہ ہیں اور نام مختلف ہوتے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جب آپ سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں تو مکہ اور مدینہ میں بلڈنگ معاون آپکی رہنمائی کیلئے موجود ہونگے ـ کسی بھی تکلیف کی صورت میں ان سے رابطہ کرسکتے ہیں ـ مکہ اور مدینہ منورہ کے مرکزی ہسپتال میں ڈاکٹر، لیبارٹری ، ایکسرے، داخلے کے لئے وارڈز اور علاج کی تمام سہولتیں میسر ہیں ـ نیز آپ کی رہائش گاہ کے قریب حکومت پاکستان کی طرف سے ایک ڈسپنسری موجود ہو گی ـ بوقت ضرورت ڈسپنسری کے ڈاکٹر سے طبی مشورہ لیا کریں حج کے دوران جن بیمارافراد کو کرسی (Wheel chair) پر طواف اور سعی کرایا جاتا ہے ـ وہ بیت للہ کی بالائی منزل میں جائیں ـ کیونکہ نیچے زیادہ رش کی وجہ سے اکثرافراد مریض کی کرسی سے ٹکرا کر گر جاتے ہیں ـ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بیمارافراد بھیڑ میں نہ جائیں بلکہ اوپر والی منزل یا چھت میں آرام آرام سے طواف و سعی کریں کھانے پینے میں احتیاط کریں، اپنا علیحدہ تولیہ، صابن اور مسواک یا برش استعمال کریں، اپنی رہائش گاہ، حمامات اور اردگرد ماحول کی صفائی کا خیال رکھیں ـ بچا ہوا کھانا ،پھلوں کے چھلکے ،استعمال شدہ برتن اور دیگر کوڑا کرکٹ مقررشدہ جگہوں تک پہنچائیں۔ اپنے حصے سے زیادہ کھانا مت لیں نیز کھانا ضائع مت کریں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiBBMbqLcVRJMpf0TxBUYmnNGY2iC7kOCCWRdpCHUV9uNjFITL95mYi-bpo84ZpN3h7pTFVpOYb0m6dLJt8jj3rmryLnHkFher-cHlqOcpezz61ejKEoWqCoc5c4V6cqLy0SWJkd-o-a928zvibixpRvJ2WVwHddjUsbiTM3xc_QrL5S9FlK4I_M98s/s670/Hajj%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="394" data-original-width="670" height="235" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiBBMbqLcVRJMpf0TxBUYmnNGY2iC7kOCCWRdpCHUV9uNjFITL95mYi-bpo84ZpN3h7pTFVpOYb0m6dLJt8jj3rmryLnHkFher-cHlqOcpezz61ejKEoWqCoc5c4V6cqLy0SWJkd-o-a928zvibixpRvJ2WVwHddjUsbiTM3xc_QrL5S9FlK4I_M98s/w400-h235/Hajj%203.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آب زم زم پانی کے کولرکے قریب گرے ہوئے پانی پر اکثرضعیف افراد پھسل کر گرجاتے ہیں ـ اس لئے احتیاط کریں ـ آب زمزم پیتے وقت ہر بار اپنی صحت کے لئے دعا کریں کوشش کریں اپنے محدود دوران قیام میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں حج نام ہے صبر کا اور حج پر آزمائشیں زیادہ آتی ہیں شیطان پوری کوشش کرے گا آپ کے اعمال ضائع کروانے کی جب وہ دیکھے گا کہ آپ اتنی نیکیاں لے کر جا رہے ہیں وہ پورا زور لگاے گا کہ کسی طرح آپ کو کسی حاجی سے لڑائی جھگڑا کرواے وہاں پر منی اور عرفات میں قدم قدم پر صبر کرنا پڑے گا پھر جا کر آپ کا حج حج مبرور ہو گا منی اور عرفات میں لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنا جھگڑنا شروع ہو جاتے ہیں اس سے بچیٔے گا اور اگر کوئی دوسرا حاجی آپ سے زیادتی کر جاۓ تو پھر بھی صبر کریں انشاللہ اس کا بہترین اجر آپ کو ملے گا</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">روضہ رسول پر جوتے ہاتھ میں نا پکڑے سخت بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے آپ جوتے باھر رکھ آہیں مسجد کے اندر ریک ہیں ان میں رکھ دیں یا بہتر ہے مسجد میں موضے استعمال کریں</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دوران طواف فون بند کر دیں یہ بھی نماز کی طرح ہے ویڈیو کال بلکل نا کریں خاص کر خواتین کو کیونکہ دوران طواف آپ کے موبائل سے خاتون کو سب لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں جو آپ کے پیچھے چلتے ہیں کھانا اتنا ہی لیں جتنا آپ کھا سکتے ہیں۔ منی میں کیمپ میں کولڈ ڈرنکس اور مالٹے دیتے ہیں۔ منی میں دوکانیں اور ہوٹل بھی موجود ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پیدل چلنے کی عادت ڈالیں وہاں پر سخت گرمی اور خشک موسم ہو گا اور رش بھی بہت ہو گا اپنے گھر یامسجد کے اندر ننگے پاؤں چلنے کی عادت ڈالیں طواف کے دوران سبز لائٹ پر ہی طواف ختم کریں- سبز لائٹ سے پہلے ہی باھر چلے جانے سے ہیں اس سے آپ کا طواف پورا نہیں ہو گا </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اپنا قیمتی سامان بڑے بیگ میں نا ڈالیں بلکہ اس کو اپنے اینڈ کیری میں رکھیں اگر خدا نخواستہ آپ کا بیگ گم بھی ہو جائے تو آپ کے لیے کم پریشانی بنے</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اپنے بیگ پر اپنے کوائف لازمی لکھیں اور ایک چٹ پر لکھ کر بیرونی جیب میں بھی ڈال لیں</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">احرم کی چادر نیچے تہبند والی ناف سے اوپر باندھیں کیونکہ مرد کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہوتا ہے بہت سے حاجی جن کی چادر ناف سے کافی نیچے اور گھٹنے سے اوپر ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ ضرورت پڑنے پر احرام کی چادر کو دھویا بھی جا سکتا ہے اور تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ احرام کو بوجہ ضرورت یعنی نہانے کیلئے کھولنا اور خواتین کا وضو کرتے وقت سر کے مسح کیلئے سر کا رومال/عبایا کھولنے کی اجازت ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">منی میں خیموں میں اپنی کرنٹ لوکیشن کسی ساتھ والے حاجی کو بھیج دیں اور اگر کوئی خیمہ بھول جاے تو اس لوکیشن پر جا کر آسانی سے مل جائے گا</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جو حاجی ساتھ ہو نگے ان کا نمبر لازمی اپنی پاس رکھ لیں اور اگر بچھڑ جاٰئیں تو اس سے کہیں واٹس ایپ پر آپ کواپنی لوکیشن بھیج دیں اور حج کی پاکستانی ایپ PVG hajj اسٹال کر لیں</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مسلکی بحث ہرگز نا کریں</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">طواف زیارت سے واپسی پر زیادہ تر لوگ بھول جاتے ہیں واپسی کا راستہ گوگل ماپ بیسٹ آپشن ہے</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">قربانی کے ٹوکن غیر مجاز لوگوں سے مت لیں بلکہ وزارت کی ہدایات پر عمل کریں</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دوائیاں صرف اتنی لے جائیں جتنی ضرورت ہو باقی سعودی عرب سے مل جائیں گی اور سعودی گورنمنٹ بھی پاکستان کی طرف سے میڈیکل کیمپ سے فری دیتی ہے ان سے لے لیں</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مکہ مکرمہ یا مدینہ پاک میں اگر کسی حاجی کو نسک ایپ کی سمجھ نا آئے تو پریشان ہونی کی کوئی ضرورت نہں ساتھی حجاج یا معاونین حج سے مدد طلب کریں</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اگر آپ چائے کے شوقین ہیں تو بازار سے چائے خریدنے کے بجائے اسے خود ہی بنانے کا اہتمام کریں۔ ویسے تو چاے دو ریال فی کپ ملتی ہے مگر حج کے ایام میں چائے یا کھانا کا ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ ایک الیکٹرک کیٹل یہیں سے خرید لیں اور چاہیں تو وہیں جا کر خریدیں۔ ٹی بیگ بھی یہیں سے خریدنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔ خشک دودھ اور چینی ہرگز کمپنی بند پیکنگ میں لے جائیں۔ یہ دونوں اشیا وہاں باآسانی مناسب قیمت پر دستیاب ہیں۔ الیکٹرک کیٹل میں پانی گرم کریں اور ٹی بیگ ڈال کر چائے جب چاہیں بنا کر پئیں</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جانے سے قبل اپنے بیگ کا خوب جائزہ لیں کہ وہ مضبوط ہوں کیونکہ سامان کئی بار اتارا اور رکھا جاتا ہے جس میں ان کے کھلنے اور سامان کے بکھرنے کا احتمال رہتا ہے۔ احتیاط کے پیش نظر بیگ پر چڑھانے کے لیے کپڑے کے غلاف تیار کر لیں جنہیں ڈوری سے اچھی طرح باندھ لیں۔ بیگ، اٹیچی اور غلاف مہر پر اپنا نام، پتا اور فون نمبر نمایاں طور پر لکھیں اور ایک آدھ مارکر اور چند بال پین اپنے ہمراہ ہمیشہ رکھیں تاکہ ایئرپورٹ پراندراجات کے وقت پریشانی نہ ہو</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اللہ پاک تمام حجاج کاحج مقبول و مبرور فرمائے۔ آمین<br />از محمد علي کلوڑ۔ میرپورماتھیلو- گھوٹکی، سندھ، پاکستان</h2> KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-79232239558257399912023-05-03T06:02:00.000-07:002023-05-03T06:02:38.966-07:00اسٹاک ایکسچینج<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><span style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh9WzFJ-1OSFmYgKBf06SGhQqOCHmR4Mps6Im4dXC5jhtDOwnZiK8s4S9wSFm7iH3-Hk9Dz9LHDij_7DZzD4cgdoO2_QBDxTA8U8PtnFVGV0ZXFTmX-03gXbmYFz4dp-TCLFUgXAa4dCTon0AnuvFJcdb-enisM9_qGUYoLPzKum4Mq4CPBezb68kZL/s1920/Sadaqah%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1280" data-original-width="1920" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh9WzFJ-1OSFmYgKBf06SGhQqOCHmR4Mps6Im4dXC5jhtDOwnZiK8s4S9wSFm7iH3-Hk9Dz9LHDij_7DZzD4cgdoO2_QBDxTA8U8PtnFVGV0ZXFTmX-03gXbmYFz4dp-TCLFUgXAa4dCTon0AnuvFJcdb-enisM9_qGUYoLPzKum4Mq4CPBezb68kZL/w400-h266/Sadaqah%203.jpg" width="400" /></a></div>’’مجھے بھی آج تک وجہ سمجھ نہیں آئی‘‘ اس نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا‘ میں نے دوبارہ پوچھا ’’لیکن کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہو گی‘ تم کام یابی کے کسی بھی فارمولے پر پورے نہیں اترتے‘ تعلیم واجبی‘ عقل اوسط درجے کی‘ کاروباری سینس نہ ہونے کے برابر‘ حلیہ اور پرسنیلٹی بھی بے جان اور سونے پر سہاگا تم اپنے کاروبار کو بھی وقت نہیں دیتے‘ ہفتہ ہفتہ دفتر نہیں جاتے لیکن اس کے باوجود تمہیں کبھی نقصان نہیں ہوا۔ سیلاب میں بھی سارے شہر کے گودام پانی میں ڈوب جاتے ہیں مگر تمہارے گودام میں پانی داخل نہیں ہوتا اور اگر داخل ہو جائے تو یہ تمہارے مال کو چھوئے بغیر چپ چاپ نکل جاتا ہے‘ تم لوہا بیچنا شروع کر دو تو وہ چاندی کے برابر ہو جاتا ہے اور حتیٰ کہ تمہارے نلکے کا پانی بھی منرل واٹر ہے۔ آخر اس کے پیچھے سائنس کیا ہے؟‘‘ میری تقریر سن کر اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں بھی اکثر اپنے آپ سے یہ پوچھتا ہوں لیکن یقین کرو مجھے زندگی میں ایک واقعے کے سوا کوئی نیکی‘ اپنی کوئی صفت نظر نہیں آتی‘ شاید اللہ کے کرم کی یہی وجہ ہو‘‘ وہ رکا اور بولا ’’میں نے نویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑ دیا تھا‘ میں شروع میں والد کے ساتھ فروٹ کی ریڑھی لگانے لگا‘ والد کا انتقال ہو گیا تو میں ایک آڑھتی کی دکان پر منشی بھرتی ہو گیا۔</span></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">زندگی بے مقصد‘ بے رنگ اور الجھی ہوئی تھی‘ دور دور تک کوئی امید نظر نہیں آتی تھی لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ میں ایک دن اپنے ایک دوست کی کریانے کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا‘ وہاں درمیانی عمر کی ایک خاتون آئی‘ اسے دیکھتے ہی میرا دوست اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے لگا‘ وہ اس سے پرانے پیسے مانگ رہا تھا جب کہ وہ مزید سودے کے لیے منتیں کر رہی تھی۔ عورت مجبور دکھائی دے رہی تھی جب کہ میرا دوست اس کے ساتھ غیر ضروری حد تک بدتمیزی کر رہا تھا‘ میں ان کی تکرار سنتا رہا‘ خاتون جب مایوس ہو کر چلی گئی تو میں نے اپنے دوست سے ماجرا پوچھا‘ اس کا جواب تھا‘ یہ بیوہ ہے‘ اس کا خاوند سعودی عرب میں کام کرتا تھا‘ خاندان خوش حال تھا لیکن پھر خاوند روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گیا اور اس کی زمین جائیداد پر اس کے دیوروں نے قبضہ کر لیا۔ اس کے پاس اب چھوٹے سے گھر کے علاوہ کچھ نہیں‘ دو بچیاں ہیں‘ وہ اسکول جاتی ہیں‘ یہ ان پڑھ اور بے ہنر عورت ہے‘ اس کا ذریعہ روزگار کوئی نہیں‘ سعودی عرب سے دو چار ماہ بعد خاوند کی تھوڑی سی پنشن آ جاتی تھی اور یہ اس میں گزارہ کر لیتی تھی مگر اب وہ بھی رک گئی ہے‘ میرے والد صاحب اسے ادھار راشن دے دیتے تھے لیکن یہ بھی اب تھک گئے ہیں لہٰذا میں جب بھی اسے دیکھتا ہوں تو میں اس سے اپنے پیسے مانگ لیتا ہوں‘ یہ ہمارا روز کا تماشا ہے‘ تم چھوڑو‘ یہ بتاؤ تم آج کل کیا کر رہے ہو؟‘‘ وہ رکا اور ہنس کر بولا ’’یہ ایک عام سی کہانی تھی‘ ایسے کردار ہر شہر‘ ہر قصبے میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjzea6DQlDEhmn-w4z3-Xcp3QnSmhNh8wkIbFqruiCjx6ZJZJPIok1VQGqzPANyhpeJXqhUbj9CFhG4cbk2zKvqFzx2bLKA5BJbSO07eJ6lYPKi2vpH9eZ7z1j1Drc8HCWHDULuGRu6YLx4z2g8RbZ_LcfiRp0kYvkKMgTE-A0vijV-w9zhR4u_yZzf/s1920/Sadaqah%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1280" data-original-width="1920" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjzea6DQlDEhmn-w4z3-Xcp3QnSmhNh8wkIbFqruiCjx6ZJZJPIok1VQGqzPANyhpeJXqhUbj9CFhG4cbk2zKvqFzx2bLKA5BJbSO07eJ6lYPKi2vpH9eZ7z1j1Drc8HCWHDULuGRu6YLx4z2g8RbZ_LcfiRp0kYvkKMgTE-A0vijV-w9zhR4u_yZzf/w400-h266/Sadaqah%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آپ کسی کریانہ اسٹور پر چلے جائیں‘ آپ کو ایسے بیسیوں لوگ مل جائیں گے مگر پتا نہیں مجھے کیا ہوا؟ میں نے اپنے دوست سے اس کا پتا لیا‘ اس کے خاوند کا نام پوچھا‘ بازار گیا‘ دو ہفتوں کے لیے کھانے پینے کا سامان خریدا‘ بوری بنائی اور جا کر اس کے دروازے پر دستک دے دی‘ وہ اپنی چادر سنبھالتے ہوئے باہر آ گئی‘ پانچ اور سات سال کی دو بچیاں بھی اس کے ساتھ آ کر کھڑی ہو گئیں‘ میں نے سودا ان کی دہلیز پر رکھا اور ادب سے عرض کیا‘ میرے والد ارشد صاحب مرحوم کے دوست تھے۔ انھوں نے آپ کے خاوند سے کچھ رقم ادھار لی تھی‘ وہ مجھے قرض کی ادائیگی کا حکم دے گئے ہیں‘ میرے حالات سردست اچھے نہیں ہیں اور میں یہ رقم یک مشت ادا نہیں کر سکتا‘ میری تنخواہ کم ہے‘ آپ اگر مجھے اجازت دیں تو میں آپ کو پندرہ دن بعد گھر کا سودا دے دیا کروں گا‘ اس سے میرا قرض بھی اتر جائے گا اور آپ کے گھر کا نظام بھی چلتا رہے گا‘ وہ عورت اور اس کی بچیاں حیرت سے میری طرف دیکھنے لگیں‘ میں نے انھیں سلام کیا اور واپس آ گیا‘ میں اس کے بعد انھیں ہر پندرہ دن بعد راشن پہنچانے لگا‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">میں نے اس سے پوچھا’’تم خود غریب تھے‘ تم ان کے راشن کے لیے رقم کہاں سے لاتے تھے؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’تم شاید یقین نہیں کرو گے میں نے اپنی جیب سے صرف وہی سودا خریدا تھا‘ پندرہ دن بعد ان کا سودا فری ہو چکا تھا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ وہ بولا ’’میں اگلے دن دکان پر گیا تو میرے مالک نے مجھے مشورہ دیا‘ ہماری دکان کا تھڑا خالی ہوتا ہے۔ تمہارا کام شام کے وقت اسٹارٹ ہوتا ہے اور وہ بھی تم گھنٹے میں ختم کر دیتے ہو اور سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہو‘ میں تمہیں چاول اور دالیں دے دیتا ہوں‘ تم یہ تھڑے پر رکھو اور پانچ پانچ‘ دس دس کلو بیچ دو‘ تمہیں اس سے فائدہ ہو جائے گا‘ غلہ منڈی میں تھوک کا کام ہوتا تھا‘ ہمارے پاس پانچ دس کلو کے بے شمار خریدار آتے تھے لیکن ہم ان سے معذرت کر لیتے تھے‘ مجھے یہ آئیڈیا اچھا لگا‘ میں اپنے مالک سے دالیں‘ چاول اور چینی خریدتا تھا۔ اس کے پانچ پانچ اور دس دس کلو کے پیکٹ بناتا تھا اور کھڑے کھڑے بیچ دیتا تھا‘ آپ یقین کریں دو ہفتوں میں میری آمدنی چار پانچ گنا بڑھ گئی اور میں پندرہ دن بعد جب اس بیوہ کے گھر گیا تو میرے پاس سودا بھی ڈبل تھا اور میری جیب بھی ٹھیک ٹھاک بھاری تھی‘ میں نے ایک ماہ بعد اسے بچیوں کی فیس‘ کپڑوں اور جوتوں کے لیے بھی رقم دینا شروع کر دی‘ اللہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں دو سال بعد اس دکان کا مالک تھا جس پر میں منشی ہوتا تھا‘ وہ دکان بعدازاں پورے کمپلیکس میں تبدیل ہو گئی اور میں دکان دار سے سیٹھ بن گیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">میں منڈیوں میں اجناس سپلائی کرنے لگا اور آج میں تمہارے سامنے ہوں‘ مجھے کبھی نقصان نہیں ہوا‘ کیوں نہیں ہوا؟ شاید اس کی وجہ وہ عورت اور اس کی دو بچیاں تھیں‘ وہ بچیاں بڑی ہوئیں‘ ایک ایم بی بی ایس کر کے ڈاکٹر بن گئی‘ دوسری نے بی اے کے بعد بیوٹی پارلر بنا لیا‘ وہ اب چودہ پندرہ سیلون چلا رہی ہے جب کہ آنٹی ایک یتیم خانہ اور بیوہ گھر چلا رہی ہے‘‘ وہ ایک بار پھر رک گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’تم نے اس کے بعد کیا کیا؟‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’مجھے نیکی کا چسکا پڑ گیا‘ میں نے اس کے بعد اس جیسے گھرانوں کو راشن دینا اور فیملیز کی مدد کرنا شروع کر دیا۔ میں پہلے اپنی کمائی کا دس فیصد اللہ کی راہ میں خرچ کرتا تھا اور یہ اب آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے 60 فیصد ہو چکا ہے‘ میرے منافع کا 60 فیصد اللہ کی راہ پر خرچ ہوتا ہے‘ میں اپنی ذات کے لیے صرف 40 فیصد رکھتا ہوں لیکن یہ 40 فیصد بھی بے انتہا ہے۔ میں روز صبح اٹھتا ہوں اور آنٹی کو دعا دیتا ہوں‘ وہ اگر اس دن میری زندگی میں نہ آتی تو میں شاید آج بھی کسی دکان پر منشی ہوتا اور سات آٹھ ہزار روپے تنخواہ لے رہا ہوتا‘ وہ آئی اور اس نے مجھے اس راستے پر ڈال دیا جس پر کام یابی اور خوش حالی کے پُل ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مجھے یقین ہے آپ کو یہ کہانی فرضی لگے گی اور آپ یہ سوچ رہے ہوں گے میرے پاس اس قسم کی کہانیاں گھڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں لیکن آپ یقین کریں یہ کہانی سو فیصد سچی ہے اور یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے‘ دنیا میں ایسی لاکھوں کروڑوں مثالیں موجود ہیں‘ میں اپنے ملک میں ایسے درجنوں لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اللہ سے تجارت کی اور یہ خود بھی ارب پتی ہو گئے اور ان کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کے لیے بھی زندگی آسان ہو گئی۔ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ بھی زندگی میں ایک بار ایسا کر کے دیکھ لیں‘ آپ اٹھیں اور کسی بیوہ‘ کسی یتیم کا ہاتھ پکڑ لیں‘ آپ کسی طالب علم کی تعلیم کا خرچہ اٹھا لیں اور آپ اس کے بعد اللہ کا کرم دیکھیں‘ آپ کو اگر اس کے بعد خوش حالی‘ مسرت اور کام یابی نصیب نہ ہو تو آپ اپنا نقصان مجھ سے وصول کر لیجیے گا‘ آپ یقین کریں دنیا میں صرف ایک ہی تجارت ہے اور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہے۔ دنیا میں صرف ایک اسٹاک ایکسچینج ہے جس کا کاروبار کبھی بند نہیں ہوتا‘ جو کبھی مندے کا شکار نہیں ہوتی‘ جو کبھی کریش نہیں ہوتی اور وہ ہے اللہ کی اسٹاک ایکسچینج لہٰذا میرا آپ کو مشورہ ہے آپ ایک بار اس اسٹاک ایکسچینج میں کھاتا کھول کر دیکھیں‘ آپ کو تجارت کا مزہ آ جائے گا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جاوید چوہدری </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-9280941492519974822023-03-06T05:31:00.000-08:002023-03-06T05:31:27.410-08:00صابرین کے لیے خوش خبری<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgtMf2i1vbsPUkgCekeoJ-b26y8MWbToSY_Mgcdndp7TlqaD57nWVXyw4SYSMO7Z8GTFtVXnh2Ih_AL_zRJgmjsV8-bxfDm-tgHrI0THe7RDX8mEwDIKYii5AkGHgZTSluG4ddwPB6pbjCGe2Zrgq0fsqfJiU7q6rl-dclFNH-fV265ZMkONeICGEgc/s6000/Islam%2010.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="4000" data-original-width="6000" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgtMf2i1vbsPUkgCekeoJ-b26y8MWbToSY_Mgcdndp7TlqaD57nWVXyw4SYSMO7Z8GTFtVXnh2Ih_AL_zRJgmjsV8-bxfDm-tgHrI0THe7RDX8mEwDIKYii5AkGHgZTSluG4ddwPB6pbjCGe2Zrgq0fsqfJiU7q6rl-dclFNH-fV265ZMkONeICGEgc/w400-h266/Islam%2010.jpg" width="400" /></a></div>مصائب و آلام، مصیبتوں اور پریشانیوں پر شکوے کو ترک کر دینا صبر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صبر کرنا انتہائی مشکل کام ہے کیوں کہ اس میں مشقت اور کڑواہٹ پائی جاتی ہے۔ صبر کی اس تلخی کو ختم کرنے کے لیے ایک اور صبر کرنا پڑتا ہے جسے مصابرہ کہتے ہیں۔ جب بندہ مصابرہ کے درجے پر پہنچتا ہے تو پھر صبر کرنے میں بھی لذّت محسوس کرتا ہے۔ صبر ایک عظیم نعمت ہے جو مقدر والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ صبر مقاماتِ دین میں سے اہم مقام ہے اور ﷲ تعالی کے ہدایت یافتہ بندوں کی منازل میں سے ایک منزل اور اولوالعزم کی خصلت ہے۔ خوش قسمت ہے وہ شخص جس نے تقوی کے ذریعے ہوائے نفس پر اور صبر کے ذریعے شہواتِ نفس پر قابو پا لیا۔ صبر کی اہمیت و افادیت اس سے عیاں ہوتی ہے کہ ﷲ رب العزت نے اس کا بے حساب اجر رکھا ہے۔ آج کا انسان دین سے دوری کی وجہ سے رب تعالی کی حضوری، ایمان بالغیب یعنی مرنے کے بعد کی دنیا، قیامت، یومِ حساب اور جنّت و دوزخ وغیرہ کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنا سب کچھ اس دنیا میں پورا کرنا چاہتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اگر ہم خالقِ کائنات کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس دنیا میں صبر سے کام لیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل خود بہ خود ہی حل ہو جائیں گے۔ کیوں کہ انسان، معاشرے یا خاندان میں جس بھی حیثیت یا عہدے پر ہے، ضروری نہیں کہ وہاں سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہو جیسا وہ چاہتا ہے۔ جب کوئی کام انسان کی مرضی و منشاء کے خلاف سرزد ہو تو یقیناً انسان غصے میں آتا ہے اور بعض اوقات غصے سے مغلوب ہو کر اس سے کچھ ایسی حرکات سرزد ہو جاتی ہیں جو اس کی شخصیت کو داغ دار بنا دیتی ہیں۔ گویا گھر کے ایک عام فرد سے لے کر معاشرے کے ایک اہم رکن تک اور کسی بھی ادارے کے ایک خدمت گار سے لے کر اس ادارے کے سربراہ تک ہر شخص کو خلافِ طبع و خلافِ معمول امور کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر کامیاب اس شخص کو گردانا جاتا ہے جس کی پریشانیوں سے دوسرے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ مشکلات کو بھی ہنس کر برداشت کرنا جانتا ہے اور ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو صبر کی دولت سے لبریز ہو۔ صبر صرف مشکلات پر نہیں ہوتا بلکہ امورِ اطاعت و فرماں برداری میں بھی صبر ہوتا ہے۔ ﷲ تعالی کی آزمائش پر صبر کرنے سے اس کی اطاعت پر صبر کرنا زیادہ آسان ہے۔ لہذا آج صبر کی اس اہمیت اور اس کی صداقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس معاشرے کو خوب صورت بنانے کے ساتھ اپنی دنیا و آخرت بھی سنوار سکیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiD68IJonvb_oxRxB2udPsLroVdEJpGLFtmrifRJcRbbL-IyM0x6QbDXgoqQyLLfzzsqZHeQuEkeRk5bJ3AhwCGreSkToBTof2AEaTjcqRMmcWE38R8jeQXzqjbSbAJL7Hb4tNBU0eanNde3Hu8alDGJorNG3ktDhd_NQ-kiApNdOBE45S7WqerC-Lk/s1920/Islam%206.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1080" data-original-width="1920" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiD68IJonvb_oxRxB2udPsLroVdEJpGLFtmrifRJcRbbL-IyM0x6QbDXgoqQyLLfzzsqZHeQuEkeRk5bJ3AhwCGreSkToBTof2AEaTjcqRMmcWE38R8jeQXzqjbSbAJL7Hb4tNBU0eanNde3Hu8alDGJorNG3ktDhd_NQ-kiApNdOBE45S7WqerC-Lk/w400-h225/Islam%206.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">صبر : قرآن حکیم کی روشنی میں <br />ﷲ رب العزت نے صبر سے مدد لینے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً ﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرہ) آزمائش پر صبر ﷲ تعالی کی بشارت کا ذریعہ ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو مختلف طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر ان مشکلات کو ﷲ تعالی کی رضا کے لیے برداشت کر لیا جائے تو ایسے صبر والوں کو اجر کی خوش خبری ﷲ خود دیتا ہے۔ ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے: ’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیبؐ) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیں۔ جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک! ہم بھی ﷲ ہی کے ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ البقر) ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے: ’’اور ہم نے اسے دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرمائی، اور بے شک! وہ آخرت میں (بھی) صالحین میں سے ہوں گے۔‘‘ (سورہ رعد) صبر تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا خاصہ رہا ہے۔ سورہ الانبیاء میں ارشاد فرمایا: ’’اور اسمٰعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو بھی یاد فرمائیں، یہ سب صابر لوگ تھے۔‘‘</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">صبر: احادیث مبارکہ کی روشنی میں <br />حضرت سعدؓ روایت کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول ﷲ ﷺ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کن کی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’انبیائے کرامؑ کی، پھر درجہ بہ درجہ ﷲ تعالی کے مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام و مرتبہ (ایمانی حالت) کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین اور ایمان میں مضبوط ہو تو آزمائش سخت ہوتی ہے، اگر دین اور ایمان میں کم زور ہو تو آزمائش اس کی دینی اور ایمانی حالت کے مطابق ہلکی ہوتی ہے۔ بندے پر یہ آزمائشیں ہمیشہ آتی رہتی ہیں حتی کہ (مصائب پر صبر کی وجہ سے اسے یوں پاک کر دیا جاتا ہے) وہ زمین پر اِس طرح چلتا ہے کہ اس پر گناہ کا کوئی بوجھ باقی نہیں رہتا۔‘‘ اولاد بڑی نعمت ہے۔ اولاد کے ساتھ انسانی زندگی کی رونق دوچند ہے اور گویا جینے کا مقصد مل جاتا ہے مگر جب کسی وجہ سے اولاد چھن جائے تو انسان حواس باختہ ہو جاتا ہے۔<br />اس مشکل وقت میں صبر کرنے والے کے بارے میں مسند احمد اور سنن ترمذی کی یہ روایت پیش ہے جس میں رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب کسی کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو ﷲ تعالی فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے نہایت پیارے بچے کی روح قبض کر لی؟ وہ کہتے ہیں: جی ہاں۔ ﷲ تعالی فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا پھل قبض کیا ؟ وہ عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔ ﷲ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے نے اس پر کیا کہا ؟ وہ عرض کرتے ہیں: اس نے تیری حمد کی اور کہا: بے شک! ہم بھی ﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ ﷲ تعالی فرماتا ہے: اس کے لیے جنّت میں ایک مکان بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد (تعریف والا گھر) رکھ دو۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: قیامت کے روز جب مصیبت زدہ لوگوں کو (ان کے صبر کے بدلے بے حساب) اجر و ثواب دیا جائے گا تو اس وقت (دنیا میں) آرام و سکون (کی زندگی گزارنے) والے تمنّا کریں گے: کاش! دنیا میں ان کی جِلد قینچی سے کاٹ دی جاتی (تو آج وہ بھی اِن عنایات کے حق دار ٹھہرتے)۔‘‘ (جامع ترمذی) حضور نبی اکرم ﷺ نے صبر کو نصف ایمان قرار دیا۔ (سنن بیہقی) صبر کہنے کو تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا مشکل کام ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے آج کے دور کو مدِنظر رکھتے ہوئے صحابہ کرام ؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ’’تمہارے بعد ایسے دن آنے والے ہیں جن میں (دین پر جمنے رہنے پر) صبر کرنا دہکتے کوئلے کو مُٹھی میں پکڑنے کے مترادف ہے اور ایسے زمانے میں صبر کرنے والے کو اس جیسا عمل کرنے والے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا۔ دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے کہ صحابہؓ میں سے کسی نے پوچھا کہ پچاس اس کے زمانے کے یا ہمارے زمانے کے؟ تو آپؐ نے فرمایا: نہیں بلکہ آپ کے زمانے کے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا۔ (سنن ترمذی) حضرت عبدﷲ بن عمرو بن عاصؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’قیامت والے دن جب ﷲ تعالی تمام مخلوق کو اکٹھا کرے گا تو پکارنے والا پکارے گا: صبر کرنے والے کہاں ہیں؟ کچھ لوگ اٹھیں گے جو تعداد میں کم ہوں گے اور وہ جلدی جلدی جنّت کی طرف جائیں گے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">راستے میں انہیں فرشتے ملیں گے جو ان سے پوچھیں گے: ہم آپ لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ آپ جنت کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں، آخر آپ ہیں کون؟ وہ لوگ جواب دیں گے: ہم اہلِ صبر ہیں۔ فرشتے پوچھیں گے کہ آپ نے کس بات پر صبر کیا ؟ وہ جواب دیں گے: ہم نے ﷲ تعالی کی اطاعت پر اور گناہوں سے بچنے پر صبر کیا۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ جنّت میں داخل ہو جائیں، بے شک! صبر کرنے والوں کا یہی اجر ہے۔ (علامہ ابن القیم، عدۃ الصابرین) حضرت عبدﷲ بن جعفرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ حضرت یاسرؓ، عمار بن یاسرؓ اور ام عمارؓ کے پاس سے گزرے، جب انہیں اذیّت دی جا رہی تھی تو رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابُو یاسر و اہلِ یاسر! صبر کرو، بے شک! آپ کی جزا اور بدلہ جنّت ہے۔‘‘ امام قشیری رسالہ قشیریہ میں حضرت علی کرم ﷲ وجہہ کا قول نقل کرتے ہیں: حضرت علی کرم ﷲ وجہہ نے فرمایا: ’’ایمان میں صبر کا وہی مقام ہے جو بدن میں سر کا ہوتا ہے، بغیر سر کے جسم ہلاک ہو جاتا ہے۔ پھر آپؓ نے بہ آوازِ بلند فرمایا کہ جس کا صبر نہیں اس کا ایمان نہیں۔ صبر ایسی سواری ہے جو کبھی نہیں بھٹکتی۔‘‘</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حضرت علی کرم ﷲ وجہہ نے فرمایا: صبر کے چار ستون ہیں: شوق، شفقت، زہد، انتظار۔ چناں چہ جو آگ سے ڈرا وہ محرمات سے دُور ہو گیا اور جو آدمی جنّت کا مشتاق ہوا وہ شہوات سے سلامت رہا۔ جو آدمی دنیا میں زاہد ہُوا اس پر مصائب آسان ہو گئیں اور جس نے موت کا انتظار کیا اس نے بھلائیوں کی طرف جلدی کی۔ چناںچہ آپؓ نے ان مقامات کو صبر کے ارکان فرمایا، اس لیے کہ یہ صبر سے نکلتے ہیں اور ان تمام ارکان میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے اور زہد کو ان میں سے ایک رکن قرار دیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ﷲ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مولانا محمد طارق نعمان </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-40760873273793542282023-03-06T05:02:00.001-08:002023-03-06T05:02:30.166-08:00اسلام میں دوستی کا معیار<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiQmNyonCwcypcb3NKY7zbTyBGXPBEHgi1JoQYhLGjd2-LLj7aYgd0oioPCYJvSJG3FenCngow-0nG-kRu6-Gcs81xigjFEWyLEAMOd4gh_nlQNBddWkoivqQWQKYJyT5_A4q_dnn6oyTLrUKhG7hJdWpUoPrO8QvrvRNhJyVkhVpCc81rm5JdrsgjE/s3726/Islam%208.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2484" data-original-width="3726" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiQmNyonCwcypcb3NKY7zbTyBGXPBEHgi1JoQYhLGjd2-LLj7aYgd0oioPCYJvSJG3FenCngow-0nG-kRu6-Gcs81xigjFEWyLEAMOd4gh_nlQNBddWkoivqQWQKYJyT5_A4q_dnn6oyTLrUKhG7hJdWpUoPrO8QvrvRNhJyVkhVpCc81rm5JdrsgjE/w400-h266/Islam%208.jpg" width="400" /></a></div>ﷲ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت اور مزاج میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ تنہائی سے گھبراتا ہے اور اپنے اوقات کو خوش گوار گزارنے کے لیے دوست کو تلاش کرتا ہے تاکہ اس سے دل کی باتیں کہہ سکے۔ اس لیے شریعت اسلامیہ نے نیک دوست اور ہم نشین بنانے کی ترغیب دی ہے، اہل ﷲ کی صحبت اختیار کرنے کو لازم قرار دیا ہے اور کفار، فساق اور بداخلاق دوستوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت عمران بن حطانؒ کہتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد میں گیا تو وہاں پر حضرت ابُوذرؓ اکیلے تشریف فرما تھے، میں نے عرض کیا: اے ابوذرؓ! یہ تنہائی کیوں اختیار کی ہوئی ہے؟ حضرت ابوذرؓ نے فرمایا: میں نے رسول ﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بُرے دوستوں کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے اور نیک لوگوں کی صحبت تنہائی سے بہتر ہے اور اچھی بات کہنا خاموشی سے بہتر جب کہ بُری بات کرنے سے خاموش رہنا بہتر ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : قیامت کے دن سات آدمیوں کو ﷲ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں جگہ دیں گے اور وہ ایسا دن ہو گا کہ کہ عرش کے سائے کے علاوہ اور سایہ نہیں ہو گا۔ عدل کرنے والا حکمران۔ جوانی میں عبادت کرنے والا۔ جس کا دل مسجد میں لگا رہے اگر کسی وجہ سے باہر نکلے تو دوبارہ مسجد میں آئے۔ وہ دو لوگ جو ﷲ کے لیے آپس میں دوستی اور محبت کریں، ان کا آپس میں جمع ہونا اور جُدا ہونا ﷲ کے لیے ہو۔ تنہائی میں ﷲ کا ذکر کر کے رونے والا۔ حسب نسب والی حسین و جمیل عورت کی دعوت گناہ (حرام کاری) کو ﷲ کے خوف سے چھوڑنے والا۔ اس طرح چھپا کر صدقہ دینے والا کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں نے کیا خرچ کیا ہے۔ (مؤطا مالک)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم : قرآن کریم ہر ایک سے زیادہ فضیلت والا ہے جس نے قرآن کریم کی تعظیم کی تو درحقیقت اس نے ﷲ کی تعظیم کی (کیوں کہ قرآن کریم ﷲ تعالیٰ کی صفت ہے) اور جس نے قرآن کریم کی بے قدری کی درحقیقت اس نے ﷲ تعالیٰ کے حق کی بے قدری کی۔ حاملین قرآن ﷲ تعالیٰ کی رحمت میں ہر طرف سے لپٹے ہوئے ہیں۔ کلام ﷲ کی عظمت کرنے والے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے نور ِہدایت میں ملبوس ہیں۔ جنہوں نے ان حاملین قرآن سے دوستی رکھی تو انہوں نے ﷲ سے محبت کا رشتہ جوڑ لیا اور جنہوں نے ان سے دشمنی رکھی تو انہوں نے ﷲ تعالیٰ کے حق کی ناقدری کی۔ (تفسیر القرطبی) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ﷲ تعالیٰ کے کچھ (مقرر کردہ) فرشتے ﷲ کا ذکر کرنے والوں کو تلاش کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر چکر لگاتے ہیں اور اس دوران جب وہ ایسے لوگوں کے پاس پہنچتے ہیں جو ﷲ کا ذکر کر رہے ہوں تو ایک دوسروں کو کہتے ہیں کہ آؤ! ہمیں منزل مقصود مل گئی۔ چناں چہ وہ فرشتے ان ذکر کرنے والوں کو آسمان دنیا تک اپنے پروں میں ڈھانپ لیتے ہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi-qhgu-7yKKCvqgbKdC4-lT1hlAdoiuqs2QgrLyWTpugn0sCVz1MrSxOgbI_MyJFRXvxO2otBmnE81Dpng5cuyEaDFctsJpZQdRxAxOUVGEVAhu6Q6reSveeUxYK8PyJZv2WayLq0KGULmm4jktXyY4O9X0Snrvn-XUIvsBV92F_ZI0rYnaCqWx5Da/s1920/Islam%207.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1080" data-original-width="1920" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi-qhgu-7yKKCvqgbKdC4-lT1hlAdoiuqs2QgrLyWTpugn0sCVz1MrSxOgbI_MyJFRXvxO2otBmnE81Dpng5cuyEaDFctsJpZQdRxAxOUVGEVAhu6Q6reSveeUxYK8PyJZv2WayLq0KGULmm4jktXyY4O9X0Snrvn-XUIvsBV92F_ZI0rYnaCqWx5Da/w400-h225/Islam%207.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ﷲ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے باوجود (ﷲ کا ذکر کرنے والوں کی فضیلت اور مرتبے کو ظاہر کرنے کے لیے) فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ میرے بندے کیا کر رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ﷲ! آپ کی پاکی، بڑائی، تعریف اور بزرگی بیان کر رہے تھے۔ اس پر ﷲ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ قسم بہ خدا! انہوں نے آپ کو نہیں دیکھا۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو پھر؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پھر تو وہ آپ کی پہلے سے بڑھ کر عبادت، بزرگی، بڑائی اور پاکی بیان کریں گے۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ کیا مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ آپ سے جنت مانگ رہے تھے۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا انہوں نے جنت کو دیکھا بھی ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ قسم بہ خدا! انہوں نے جنت کو نہیں دیکھا۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ جنت کو دیکھ لیں تو پھر؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پھر تو وہ جنت کے اور ہی زیادہ حریص، اس کی بہت ہی دعا مانگنے والے اور زیادہ اس کی طرف رغبت کرنے والے بن جائیں گے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جہنم سے۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا بھی ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ قسم بہ خدا! انہوں نے جہنم کو نہیں دیکھا۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ جہنم کو دیکھ لیں تو پھر؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پھر تو وہ اس جہنم سے دور رہنے کی اور زیادہ کوشش کریں گے اور اس سے پہلے سے زیادہ ڈریں گے۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان سب کی بخشش کر دی ہے۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے کہ (اے ﷲ) اس جماعت میں فلاں شخص ذکر ﷲ کے بہ جائے اپنی کسی ضرورت کے تحت آیا ہوا تھا۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ایسی خوش قسمت جماعت ہے کہ ان سے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والا شخص (خواہ وہ ذکر نہ بھی کر رہا ہو تب بھی وہ) محروم نہیں ہوتا۔ (صحیح البخاری) مفہوم آیت:’’اے ایمان والو! ﷲ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔‘‘ (سورۃ التوبۃ) ان لوگوں کے ساتھ رہو جو تقویٰ میں سچے ہیں ﷲ تمہیں بھی تقویٰ عطا فرما دیں گے۔ یاد رکھیں کہ اپنی زندگی کے اکثر اوقات متقین لوگوں کے ساتھ گزارنے سے ﷲ تقویٰ جیسی دولت عطا فرماتے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آج کل کی دوستیوں کا معیار نیکی اور تقویٰ نہیں رہا۔ دنیاوی مفادات، بیہودہ مجالس، لہو و لعب اور گناہوں کی جگہیں دوستی کا معیار بن چکی ہیں۔ وقت گزاری کے لیے لوگ ایک جمع ہوتے ہیں جہاں وہ کسی کی غیبت، عیب گوئی، بہتان طرازی، دل آزاری اور اپنے گناہوں کو ایک دوسرے کے سامنے فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ اس طرح کی مجالس سے قرآن کریم نے دور رہنے کا حکم دیا ہے کہ رحمٰن کے بندے غلط کام میں شریک نہیں ہوتے اور بیہودہ مجالس کے پاس شرافت سے گزر جاتے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے اوصاف میں ایک وصف بُری مجالس سے دوری ہے۔ کسی بیہودہ مجلس پر گزر ہو تو شرافت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ بے حیائی، ناچ گانا، محفل موسیقی، شراب و کباب کی مجالس ال غرض کسی بھی ناجائز اور ناحق کام کی مجلس میں شریک نہیں ہوتے۔ مفہوم آیت: ’’اور جس دن ظالم کافر انسان اپنے ہاتھوں کو حسرت و افسوس سے کاٹ کھائے گا اور کہے گا کہ اے کاش! میں نے رسول (ﷺ) کی ہم راہی اختیار کر لی ہوتی تو آج مصیبت سے بچ جاتا، ہائے! میری کم بختی و بربادی! کاش میں نے فلاں کافر یا بُرے شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ میرے دوست نے نصیحت کے آجانے کے باوجود مجھے اس سے بھٹکایا اور شیطان تو ہے ہی عین موقع پر دھوکا دینے والا۔‘‘ (سورۃ الفرقان)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">لمحہ فکریہ! ابھی وقت ہے اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں، دوست و احباب پر نظر کریں ایسے لوگ جو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، ان اہل ﷲ، علماء و صلحاء سے دوستی اور تعلق بنائیں اور نبھائیں بھی۔ ان کے پاس کثرت سے آنا جانا اور اٹھنا بیٹھنا رکھیں اور جو لوگ دوستی کی آڑ میں نیکی میں رکاوٹ بنیں، برائی کے لیے راہ ہموار کریں اور گناہوں پر مجبور کریں ان سے خود کو بچائیں۔<br />ﷲ کریم ہم سب کو توفیق نصیب فرمائے</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مولانا محمد الیاس گھمن </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-31270407885126646422023-01-18T01:12:00.000-08:002023-01-18T01:12:06.654-08:00حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت اور پیغام<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjcZTUPRuMeirmxLhBsVxPH4kN5APscuQKWRuxvZ4B9ErrmJ5ShBQSMzOUlwqEkVesTc6MEgjHzNLzqW_LHZjUGRS19s9eoOdg29EZhnOTfMUunQWLZjUnAkv8ERMfx_vRsbsoiDt3tyK0TZ2evfJrl9NYjVrwH6Y2wcUptvOL16Kq8vnixSCroosaK/s1920/Islam%202.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1280" data-original-width="1920" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjcZTUPRuMeirmxLhBsVxPH4kN5APscuQKWRuxvZ4B9ErrmJ5ShBQSMzOUlwqEkVesTc6MEgjHzNLzqW_LHZjUGRS19s9eoOdg29EZhnOTfMUunQWLZjUnAkv8ERMfx_vRsbsoiDt3tyK0TZ2evfJrl9NYjVrwH6Y2wcUptvOL16Kq8vnixSCroosaK/w400-h266/Islam%202.jpg" width="400" /></a></div>سیدنا عیسیٰ علیہ السلام انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں سے انتہائی ممتاز ہستی ہیں۔ ان کی ذات سے منسوب مذہب ''مسیحیت‘‘ کے پیروکار دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زائد ہیں۔ مسیحی عقیدہ تثلیث اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر چڑھ کے جمیع انسانیت کے گناہوں کے کفارے کو ادا کر دیا ہے۔ اس کے مد مقابل مسلمانوں کے عقائد کتاب وسنت کی بنیاد پر مسیحیوں کے عقائد سے مختلف ہیں۔ جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ سیدہ مریمؑ نہایت نیک اور باعمل خاتون تھیں۔ سیدہ مریمؑ کی والدہ نے اُنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کیا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے وقف کو قبول فرماتے ہوئے سیدہ مریمؑ کے لیے روحانی ترقی اور مدارج کے دروازوں کو کھول دیا اور صاحبہ کرامت بھی بنا دیا اور آپ کے پاس بے موسم کے پھل بھی آنے لگے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدہ مریم علیہا السلام کو جہانوں کی عورتوں میں سے نہایت بلند مقام عطا فرمایا۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 42 میں یوں فرماتے ہیں: ''اور (وہ وقت یاد کرو) جب کہا فرشتوں نے اے مریم! بے شک اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا ہے اور تجھے پاکیزگی عطا کی ہے اور تجھے منتخب کیا ہے جہان کی عورتوں پر (ترجیح دے کر)‘‘۔ اسی پاک دامن خاتون کے یہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ پیدا فرما دیا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت یقینا انسانی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر قرآن مجیدکے مختلف مقامات پر فرماتے ہیں جن میں سے اہم مقام سورہ مریم کا ہے۔ سورہ مریم کی آیت نمبر 16 سے 21 میں ارشاد فرماتے ہیں: '' اور ذکر کیجئے کتاب میں مریم کا جب وہ الگ ہوئی اپنے گھر والوں سے ایک جگہ میں مشرق کی جانب۔ پھر اس نے بنا لیا ان کی طرف سے ایک پردہ پھر ہم نے بھیجا اس کی طرف اپنی روح (فرشتے) کو تو اس نے شکل اختیار کی اس کے سامنے ایک کامل انسان کی۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEguRGmHBGRui2QynBv7VGvh0Fu5EDqOR9ChCFmPx1RGiVpBBY57m9QjNO-zRvmyvZWHz9avSMLuExppR_ZlEe-nKjixNvZDUG0FsFKjSysi83n88shZs82q_OzJPtpM9S4c8XVIhUijowubcDvFfbTUkO4W1KU0jnLPNtw1WCbNlB-Ben2uwnoVSB2d/s1920/Islam%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1108" data-original-width="1920" height="231" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEguRGmHBGRui2QynBv7VGvh0Fu5EDqOR9ChCFmPx1RGiVpBBY57m9QjNO-zRvmyvZWHz9avSMLuExppR_ZlEe-nKjixNvZDUG0FsFKjSysi83n88shZs82q_OzJPtpM9S4c8XVIhUijowubcDvFfbTUkO4W1KU0jnLPNtw1WCbNlB-Ben2uwnoVSB2d/w400-h231/Islam%203.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">(مریم نے) کہا بے شک میں پناہ چاہتی ہوں رحمان کی تجھ سے اگر ہے تو کوئی ڈر رکھنے والا۔ (فرشتے نے) کہا بے شک میں تو بھیجا ہوا ہوں تیرے رب کا تاکہ میں عطا کروں تجھے پاکیزہ لڑکا۔ (مریم نے) کہا کیسے ہو گا میرے ہاں کوئی لڑکا حالانکہ نہیں چھوا مجھے کسی بشر نے اور نہیں ہوں میں بدکار۔ (فرشتے نے) کہا اسی طرح (ہی ہو گا) تیرے رب نے کہا ہے وہ مجھ سے آسان ہے‘ اور تاکہ ہم بنا دیں اسے ایک نشانی لوگوں کے لیے اور رحمت (بنا دیں) اپنی طرف سے اور ہے (یہ) معاملہ طے شدہ ‘‘۔ سورہ مریم میں ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ اس بات کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ سیدہ مریم علیہا السلام اپنی قوم کی طرف آئیں تو قوم کے لوگوں نے آپ کی کردار کشی کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی جناب سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قوت گویائی عطا فرما دی اور آپ نے اپنی ولادت باسعادت کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان فرما دیا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس حقیقت کا بیان سورہ مریم کی آیت نمبر 27 سے 31 میں کچھ یوں ہوا: ''پھر وہ لے کر آئی اس کو اپنی قوم کے پاس اُسے اٹھائے ہوئے‘ انہوں نے کہا اے مریم! بلاشبہ یقینا تو نے کیا ہے کام بہت بُرا۔ اے ہارون کی بہن نہیں تھا تیرا باپ بُرا آدمی اور نہیں تھی تیری ماں بدکار۔ تو اس نے اشارہ کیا اس (بچے) کی طرف‘ وہ کہنے لگے کیسے ہم کلام کریں (اس سے) جو ہے گود میں بچہ۔ (بچے نے) کہا بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے دی ہے مجھے کتاب اور بنایا ہے مجھے نبی اور بنایا ہے مجھے بابرکت جہاں کہیں (بھی) میں ہوں اور اس نے مجھے وصیت کی ہے نماز اور زکوٰۃ کی جب تک میں رہوں زندہ ‘‘۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کی معجزاتی ولادت کی وجہ سے بہت سے لوگ شکوک وشبہات کا شکار ہوئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں اس شبہ کو انتہائی خوبصورت انداز میں دور فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 59 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ کے ہاں آدم کی مثال کی طرح ہے (کہ) اس نے پیدا کیا اسے مٹی سے پھر کہا اس کو ''ہو جا‘‘ تو وہ ہو گیا‘‘۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو بہت سے معجزات سے نوازا تھا۔ آپ بیماروں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ شفا یاب ہو جاتے‘ مردوں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ کلام کرنا شروع کر دیتے اور آپ لوگوں کو ان کے کھائے ہوئے کھانے اور چھوڑے ہوئے کھانے کے بارے میں بتلا دیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان معجزات کو سورہ آل عمران کی آیت نمبر 49 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''(جب وہ رسول بن کر آئے گا تو کہے گا) کہ بے شک میں یقینا آیا ہوں تمہارے پاس نشانی لے کر تمہارے رب کی طرف سے کہ بے شک میں بناتا ہوں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے جیسی شکل پھر میں پھونک مارتا ہوں اس میں تو وہ بن جاتا ہے (واقعی) پرندہ‘ اللہ کے حکم سے اور میں درست کر دیتا ہوں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اور میں زندہ کرتا ہوں مُردوں کو اللہ کے حکم سے اور میں خبر دیتا ہوں تم کو اس کی جو تم کھاتے ہو اور جو تم ذخیرہ کرتے ہو اپنے گھروں میں بے شک اس میں یقینا نشانی ہے تمہارے لیے اگر ہو تم مومن‘‘۔ ان معجزات کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ آپ علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوئے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کے حوالے سے غلو کا راستہ اختیار کیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی شخصیت کے حوالے سے اس بات کو بیان فرمایا کہ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کاحصہ نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے رسول تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 75 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''نہیں ہیں مسیح بن مریم مگر ایک رسول یقینا گزر چکے ہیں اس سے پہلے بہت سے رسول اور ان کی ماں صدیقہ تھی تھے وہ دونوں کھانا کھاتے ‘ (اے نبی) دیکھ کیسے ہم بیان کرتے ہیں اُن کے لیے واضح دلائل پھر دیکھ (ان دلائل کے باوجود) کیسے پلٹائے جا رہے ہیں‘‘۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 171 میں ارشاد ہوا: ''اے اہل کتاب ! حد سے تجاوز مت کرو اپنے دین میں اور مت کہو اللہ کے بارے میں سوائے حق حقیقت میں مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ (بشارت) تھے ڈال دیا اسے مریم کی طرف اور اس کی طرف سے روح تھے تو ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولوں (پر) اور مت کہو (کہ الٰہ) تین ہیں باز آ جاؤ (اس اعتقاد سے) بہتر ہو گا تمہارے لیے حقیقت میں اللہ اکیلا معبود ہے پاک ہے وہ (اس بات سے) کہ ہو اس کی اولاد ‘‘۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مصلوب ہونے کی بھی نفی کی ہے اور اس بات کو واضح فرما دیا کہ یقینا آپ علیہ السلام کو شہید نہیں کیا گیا تھا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؑ کو زندہ آسمانوں کی طرف اُٹھا لیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا بیان سورہ نساء کی آیت نمبر157‘158 میں یوں فرمایا : اور نہ انہوں نے قتل کیا اسے (عیسیٰ علیہ السلام کو ) اور نہ انہوں نے سولی پر چڑھایا اسے (عیسیٰ علیہ السلام کو) اور لیکن شبہے میں ڈال دیا گیا ان کو اور بے شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا اس میں یقینا شک میں ہیں اس بارے میں نہیں ان کے پاس اس کا کوئی علم سوائے گمان کی پیروی کے اور نہیں قتل کیا انہوں نے اسے (عیسیٰ علیہ السلام کو) یقینا بلکہ اللہ نے اسے اُٹھا لیا اپنی طرف اور ہے اللہ تعالیٰ غالب‘ حکمت والا‘‘۔ احادیث مبارکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قرب قیامت دمشق کی جامع مسجد کے شرقی مینار پر نزول کا ذکر ہے اور آپ کے ہاتھوں دجال کے قتل اور آپ علیہ السلام کے کارہائے نمایاں کی خبر بھی دی گئی ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے : مسند احمد میں سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: انبیائے کرام علاتی بھائی ہیں‘ ان کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے‘ میں دنیا و آخرت میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا سب سے زیادہ قریبی ہوں‘ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے‘ بیشک وہ نازل ہونے والے ہیں‘ پس ان کو پہچان لینا‘ وہ معتدل قد کے آدمی ہیں‘ ان کا رنگ سرخی سفیدی مائل ہے‘ ان پر ہلکی زردی کے دو کپڑے ہوں گے‘ ایسے محسوس ہو گا جیسے ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہو‘ حالانکہ نمی (پانی) لگا نہیں ہو گا‘ (یعنی وہ انتہائی چمک دار رنگ کے نظر آ رہے ہوں گے)‘ پس وہ صلیب کو توڑیں گے‘ خنزیر کو قتل کر دیں گے‘ جزیہ ختم کر دیں گے اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے‘ پس اللہ تعالیٰ ان کے اُس عہد میں اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کو ختم کر دے گا‘ اللہ تعالیٰ ان کے ہی زمانے میں دجال کو ہلاک کرے گا‘ زمین پر اتنا امن و امان واقع ہو گا کہ سانپ اونٹوں کے ساتھ‘ چیتے گائیوں کے ساتھ اور بھیڑیئے بکریوں کے ساتھ چریں گے‘ بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہیں دیں گے‘ عیسیٰ علیہ السلام زمین میں چالیس سال قیام کریں گے‘ پھر وہ فوت ہو جائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کر کے ان کو دفن کریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت کی روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت وپیغام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">علامہ ابتسام الہٰی ظہیر </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-67008365398482058612023-01-12T06:09:00.000-08:002023-01-12T06:09:14.998-08:00اخلاق حسنہ، مومن کا سرمایۂ حیات<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj06Mk2JgGpuAicZniRQEa0oyhsV6r_pJNWRzIO5R1-mJvfAZ0iTzwnYXtpx_I9aVKJgPK0WU7KZDxNvbojwjCYppEDoNZp-ANX6Dxbh2UoZE9t5eMx01s-vKqpq486B5VJOncBwQPcX_1x-wdX83Ecnlxc-1az-8yAedwwAwjND9Diz5UpKx4RgZGR/s1920/Islam%205.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1280" data-original-width="1920" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj06Mk2JgGpuAicZniRQEa0oyhsV6r_pJNWRzIO5R1-mJvfAZ0iTzwnYXtpx_I9aVKJgPK0WU7KZDxNvbojwjCYppEDoNZp-ANX6Dxbh2UoZE9t5eMx01s-vKqpq486B5VJOncBwQPcX_1x-wdX83Ecnlxc-1az-8yAedwwAwjND9Diz5UpKx4RgZGR/w400-h266/Islam%205.jpg" width="400" /></a></div>ﷲ تعالیٰ نے اخلاق آغاز فطرت میں سب سے پہلے حضرت آدمؑ کو دیا اور پھر انبیاء اور رسلؑ نے تر کہ میں پایا ہے، یہاں تک کہ حضرت سیدِ عالم ﷺ تک پہنچا اور آپؐ سے امت کو ملا ہے۔ جو کوئی شریعت کی پیروی میں زیادہ مضبوط ہو گا اُس کی خصلت بھی اچھی ہو گی۔ کیوں کہ اچھی خصلت والا بارگاہ خدا وندی میں زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ جب اچھا اخلاق حضرت آدمؑ کا ترکہ ہے اور خداوندِ جہاں کی طرف سے تحفہ دیا گیا ہے تو مومن کے لیے اچھی خصلت سے بڑھ کر اور کوئی آرائش و زیبائش نہیں ہے۔ نیک اخلاق کی حقیقت احکامِ خدا وندی کی بجا آوری اور رسول ﷲ ﷺ کی پیروی کرنا ہے۔ کیوں کہ آپؐ کا رہن سہن اور جملہ حرکات و افعال ﷲ تعالیٰ کو بہت پسند تھے، تو جو شخص آپ ﷺ کی پیروی کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ اس طرح زندگی بسر کرے جیسی حضور اکرم ﷺ نے کی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اور غیر کے ساتھ اچھا برتائو رکھے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">لوگوں کے ساتھ بد مزاجی سے پیش نہ آئے، تاکہ مروت مٹ نہ جائے اور بدخصلتی نہ کرے تاکہ خوش دلی میں فرق نہ آنے پائے۔ ہر وقت ہنس مکھ اور کم بولنے والا رہے، جس سے ملے پہلے خود سلام کرے۔ کیوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ملاقات اصحابؓ کے ساتھ اگر ایک دن میں سو مرتبہ بھی ہوتی تو آپ ﷺ ہر بار سبھی لوگوں کو سلام کرتے تھے۔ جو کچھ اس کو میسر ہے اسی میں سخاوت کرے۔ کیوں کہ حضور اکرم ﷺ کی عمر میں کبھی اس کا موقع نہ آیا کہ رات تک آپ ﷺ کے پاس ایک درہم یا ایک دینار باقی بچا ہو۔ اگر اتفاق سے کچھ رہ جاتا تو جب تک کسی کو دے نہ دیتے آپ ﷺ حجرے میں تشریف نہ لے جاتے۔ کسی کی غیبت، گالی اور جھوٹ زبان سے نہ نکالے اور اپنے کاموں میں زیادہ تکلف اور بڑھاؤ چڑھاؤ کرنے سے پرہیز کرے۔ کیوں کہ اچھے اخلاق کی صفت بے تکلفی اور سادگی ہے۔ اپنے احوال و اعمال اور گفت گُو میں سچائی کے دامن کو نہ چھوڑے اور شریعت کی اتباع میں کھانا، سونا، پہننا اور بولنا کم کر دے اور ہر حال میں ہمت بلند رکھے اور کسی لالچ کے ساتھ اپنے کو آلودہ نہ کرے اور شک و شبہ اور برباد کر دینے والے خیالات سے کنارہ کشی اختیار کرے اور اس کی کوشش کرتا رہے کہ ہر حال میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے اخلاق کی پیروی ہو۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjSaDPC15TzPQEFcQwLXRIeKhFbTflb27zGJIDe5xvIU4QoL27C1biJTVv_Zs2twXLvNX6CEgODbDpm9izFwEpNsZPlNjb81inNTdodMRbIuEDo9FURuwh8H6tXH4gxZbCQNw_2b2cEXiVqJfiXBEO5sPElKeuK_8t8aCOiYZewSvgRdyt1pGV38N06/s1920/Islam%206.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1541" data-original-width="1920" height="321" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjSaDPC15TzPQEFcQwLXRIeKhFbTflb27zGJIDe5xvIU4QoL27C1biJTVv_Zs2twXLvNX6CEgODbDpm9izFwEpNsZPlNjb81inNTdodMRbIuEDo9FURuwh8H6tXH4gxZbCQNw_2b2cEXiVqJfiXBEO5sPElKeuK_8t8aCOiYZewSvgRdyt1pGV38N06/w400-h321/Islam%206.jpg" width="400" /></a></div><br />جہاں تک ہو سکے بُرے اخلاق سے پرہیز کرے بلکہ اُسے اپنے پاس بھی نہ آنے دے تاکہ اس کی نسبت شیطان سے نہ ملنے پائے اور کسی وقت شیطان کی طرح بدکردار اور بد زبان نہ ہو۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو تجھ سے کٹ جانا چاہے اس سے مل اور جو تجھ پر ظلم کرے اُس کو معاف کر دے اور جو تجھ کو کچھ نہ دے تو اس کو دے۔‘‘ حضور اکرم ﷺ کو ﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان تھا کہ لوگوں کو ﷲ کی راہ پر لانے کے لیے حکمت کے ساتھ نرم الفاظ میں نصیحت فرمائیں، جو بہت اچھے ہوں۔ جب موسیٰ علیہ السلام کو ہارونؑ کے ساتھ فرعون کی تبلیغ کے لیے بھیجا گیا تو اُن سے کہا گیا کہ اس سے نرم لہجے میں باتیں کرنا۔ حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے دس برس تک حضرت سرورِ عالم ﷺ کی خدمت کی۔ اتنے عرصے میں کسی کام پر مجھ کو نہیں کہا کہ تُو نے کیوں کیا یا بُرا کیا۔ جب میں اچھا کام کرتا تو آپ ﷺ دعا دیتے تھے اور جب کوئی کام خراب ہو جاتا تھا تو فرماتے تھے: ’’ﷲ کا حکم اس کی قدرت میں پوشیدہ تھا۔‘‘</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنے گھوڑے کا دانہ گھاس خود دیتے۔ اپنے ہاتھ سے کپڑے سیتے اور پیوند لگاتے، گھر کے کاموں میں خادموں کے ساتھ شریک ہو جاتے، جوتوں کے بند ٹوٹ جاتے تو اپنے دستِ مبارک سے ٹانکتے، خود جھاڑو دیتے اور چراغ جلاتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کی تمام عمر گالی گلوچ، طعنہ و تشنیع کے الفاظ زبان پر نہیں آئے۔ آپؐ کا چہرۂ مبارک ہمیشہ بشاش رہتا اور اگر کوئی مسلمان آپ ﷺ کے پاس پہنچ جاتا تو آپؐ ہی سلام کے لیے سبقت فرماتے اور اصحابؓ کے ساتھ اس طرح گھل مل کر بیٹھتے تھے کہ کوئی امتیاز نہ ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ اجنبی کو پہچان نے میں شبہ ہوتا تھا کہ حضور اکرم ﷺ کون ہیں۔ صحابہ کرامؓ کی عزت و تکریم کی وجہ سے اُن کے نام نہ لیتے بل کہ ان کی کنیت وغیرہ سے پکارتے تھے۔ اگر کسی کی کنیت نہ ہوتی تو اس کی ایک کنیت آپ خود رکھ دیتے اور اگر صحابہ کرامؓ میں سے یا کوئی دوسرا شخص آپؐ کو پکارتا تو لبیک فرمایا کرتے تھے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اگر بچوں کی طرف سے گزرتے تو اُن کو سلام کرتے اور مسلمانوں کا عیب ہمیشہ چھپایا کرتے تھے۔ بال بچوں اور غلاموں کا حق برابری کے ساتھ جس طرح شریعت میں ہے لحاظ رکھتے اور دین کی تبلیغ کرنے میں کفار کی گالیاں، لعن طعن اور مار تک برداشت کرتے، کبھی کسی سائل کو محروم واپس نہ کرتے۔ اگر کچھ موجود ہوتا تو دیتے ورنہ فرماتے اگر خدا نے چاہا تو ہم دیں گے۔ اپنے کام کے لیے آپ کسی پر غصہ نہ کرتے اور دین حق کے اعلان میں خوف، سستی اور تغافل نہ فرماتے۔ پریشانی اور بیماری کی حالت میں اپنے دوستوں کی مدد کرتے۔ اگر کسی وقت ان کو نہ دیکھتے تو ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ اگر آپ ﷺ کا غلام بیمار پڑ جاتا تو اُس کی جگہ آپؐ خود اس کا کام انجام دیتے تھے۔ بازار سے سودا لا دیتے تھے۔ آزاد اور غلاموں کی دعوت قبول فرماتے اور تحفہ لے لیتے تھے، اگر چہ ایک گھونٹ دودھ ہی کیوں نہ ہوتا۔ آپؐ کے احباب جو کھانا بھی، اگر جائز ہوتا پیش کرتے تو شوق سے کھا لیتے۔ کبھی کھانے میں عیب نہ نکالتے اور جو کپڑا جس کا پہننا مباح ہے جب کبھی مل جاتا تھا پہن لیتے تھے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">کبھی کمبل، کبھی یمن کی چادر، کبھی کھدر اور کبھی سفید کپڑا پہنا کرتے تھے اور جو سواری مل جاتی تھی اس پر سوار ہوتے تھے۔ جیسا موقع ہوتا اور اُس چٹائی پر جس پر کوئی بستر نہ ہوتا آرام فرماتے تھے۔ کوئی شخص آزاد یا غلام یا لونڈی باندیوں میں سے اپنی ضرورت کے لیے آپؐ کو بلاتا تو کبھی ایسا نہ ہوا کہ حضور اکرم ﷺ نے اُن کے کاموں کو قبول نہ کیا ہو۔ اگر کوئی شخص کسی ضرورت سے آپؐ کے پاس آتا اور آپؐ نماز میں مشغول ہوتے تو آہستگی کے ساتھ جلد نماز پوری کر کے اُس کی طرف متوجہ ہو جاتے اور اُس کی ضرورت پوری کر کے پھر نماز پڑھنے لگتے۔ جو کوئی آپ ﷺ کے پاس آتا تھا اُس کی تعظیم فرماتے تھے۔ حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کے لیے آپؐ سواری بن جاتے اور وہ دونوں لاڈلے آپ ﷺ کی پشتِ مبارک پر سوار ہو جاتے۔ جس طرح وہ کہتے ویسا ہی کرتے تھے۔ ان سب باتوں کی روایت حضرت ابُُوسعید خدریؓ نے کی ہے اور حدیثوں کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس طرح کے اخلاق آپ ﷺ میں تھے جو بیان کیے گئے اور اسی طرح کے بے شمار اخلاق آپ سے مروی ہیں۔ اگر آپ ﷺ کے وہ معجزے بھی نہ ہوتے تو یہ اخلاقِ حمیدہ اور صفاتِ پسندیدہ ہی آپؐ کے برحق و برگزیدہ اصول ہونے کے ثبوت میں کافی ہیں۔ چناںچہ کتنے دشمن اور انکار کرنے والے ایسے گزرے ہیں کہ محض آپ ﷺ کو دیکھ کر ہی پکار اُٹھے تھے: ’’یہ جھوٹ بولنے والوں کا چہرہ نہیں ہے۔ اور فوراً ایمان لے آتے تھے اور اسلام قبول کر لیتے تھے۔‘‘ یہی وہ اخلاق ہیں جو اہل علم و فضل نے طریقت کے راستے میں اختیار کیے ہیں۔ ہر حالت میں یہ لوگ شریعت کی پیروی کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے اخلاق کو سنتِ نبوی ﷺ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ جب تک کوئی شخص شریعت پر کاربند نہ ہو گا طریقت سے اُس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور وہ اخلاق کی جڑ معرفت تک نہیں پہنچ سکتا۔ الحمدﷲ! ہم مسلمان اور مومن ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں ہمارے اخلاق ناقابل برداشت حد تک ترش اور تند ہو گئے ہیں۔ چغلی، غیبت، جھوٹ، گالی گلوچ اور عیب جوئی ہمارا شغل بن چکا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ہمیں اخلاقِ عظیم کے حامل رسول کریم ﷺ کے امتی ہونے کے ناتے سے ہر ممکن حد تک اپنے اخلاق میں سنتِ نبویﷺ کی جھلک کو لانا ضروری ہے تاکہ معاشرہ اخلاق نبوی ﷺ کے خُوش بُو سے ایک بار پھر معطر ہو جائے۔ <br />ﷲ تعالیٰ ہمیں اچھے اخلاق کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">علامہ محمد تبسّم بشیر اویسی </h2><div dir="rtl" style="text-align: right;"><br /></div>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-48276425618816425272023-01-02T03:04:00.000-08:002023-01-02T03:04:36.718-08:00سورۃ العصر<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgNxAhRVZcjAY-WkYT1qjtOVF6G0-7-7qMm9pmKtUn_JsPpGCLhQvDp1Dwomnv2dsOCVWWbtpbezbhgjxxh1RET0CfWpZFVsYpGekdR8NGAze2nK3k92sbLnkRI5UyMsE3cM6NNHWXx_Zmm6FT7Q19qQzdI4ZWjmJMHN7-L26w6CkUHEnviD9AiX0k9/s1920/Surah%20AlAsr%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1233" data-original-width="1920" height="258" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgNxAhRVZcjAY-WkYT1qjtOVF6G0-7-7qMm9pmKtUn_JsPpGCLhQvDp1Dwomnv2dsOCVWWbtpbezbhgjxxh1RET0CfWpZFVsYpGekdR8NGAze2nK3k92sbLnkRI5UyMsE3cM6NNHWXx_Zmm6FT7Q19qQzdI4ZWjmJMHN7-L26w6CkUHEnviD9AiX0k9/w400-h258/Surah%20AlAsr%203.jpg" width="400" /></a></div>سورۃ العصر قرآن حکیم کی مختصر سورتوں میں سے ہے لیکن نفس مضمون اور مفہوم و معنی کے اعتبار سے یہ قرآن کریم کی جامع ترین سورت ہے۔ قران کریم کتاب ہدایت ہے اور اس میں انسان کی نجات، کامیابی اور فوز و فلاح کا جو راستہ دکھایا گیا ہے وہ نہایت اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ اس چھوٹی سی سورت میں بیان فرمایا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امام شافعیؒ نے اس سورۃ مبارکہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر قرآن مجید میں اس سورہ کے سوا اور کچھ نازل نہ ہوتا تو یہی ایک سورۃ لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی۔ اس سورۃ مبارکہ کا سادہ ترین الفاظ میں مفہوم یہ ہے: ’’زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہیں۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور باہم ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کی۔‘‘ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس سورۃ مبارکہ میں ﷲ تعالیٰ نے انسان کی اصل کام یابی اور ناکامی کا معیار پیش کیا ہے اور انسان کو متنبہ کیا ہے کہ ان کی حقیقی کام یابی کا معیار زر اور زمین، دنیاوی حیثیت و وجاہت، اقتدار، دبدبہ، جاہ و جلال، نام نمود اور عزت و شہرت نہیں بلکہ اس کے پیش نظر اصل کام یابی وہ ہونی چاہیے جو ان کے اخروی نجات کا سبب بنے۔ ﷲ تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ میں انسانی فوز و فلاح اور نجات کے لیے چار شرائط پیش کی ہیں۔ اس کی پہلی شرط ایمان ہے، دوسری شرط عمل صالح، تیسری تواصی بالحق اور چوتھی شرط تواصی بالصبر ہے۔ جس انسان میں یہ چار چیزیں موجود نہ ہوں وہ ناکام و نامراد اور خائب و خاسر ہے چاہے وہ دنیا میں کتنا ہی صاحب اقتدار اور صاحب ثروت کیوں نہ ہو۔ یہ سادہ سی حقیقت اگر ہمارے ذہن نشین ہو جائے اور ہماری قلب و روح پر کندہ ہو جائے تو یقیناً ہماری اقدار بدل جائیں گی، ہمارا رویہ تبدیل ہو جائے گا، ہماری ترجیحات بدل جائیں گی اور ہمارے نقطۂ نظر میں ایک انقلاب عظیم برپا ہو جائے گا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhZ-MYRv3igPWxL--VU536h33bAUelButKVyyC9jWlUpOAusNxgwLbrj0MMIA0xyZXepvi1UJyf7KQgDaxqqKZFBBkfsoxVnH5JU08iLkX_eVAZ55Qx0NSMIwuztyFWLUn9iiOTSqfls2fYoSMNhZErUVLqmlqPj3GmPCSzBEViHqMRi5cCWVyU7paT/s1920/Surah%20AlAsr%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1280" data-original-width="1920" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhZ-MYRv3igPWxL--VU536h33bAUelButKVyyC9jWlUpOAusNxgwLbrj0MMIA0xyZXepvi1UJyf7KQgDaxqqKZFBBkfsoxVnH5JU08iLkX_eVAZ55Qx0NSMIwuztyFWLUn9iiOTSqfls2fYoSMNhZErUVLqmlqPj3GmPCSzBEViHqMRi5cCWVyU7paT/w400-h266/Surah%20AlAsr%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس حقیقت کو سرسری طور پر مان لینا جس قدر آسان ہے اس پر صبر و استقامت کے ساتھ دل کا استحکام اتنا ہی مشکل ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ لوازم نجات کے حوالے سے جو تاکیدی اسلوب اس سورۃ مبارکہ میں اختیار فرمایا گیا ہے، اس سے صرف نظر کرنے کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی موجود نہیں ہے۔ عصر کا اصل مفہوم تیزی سے گزرنے والا زمانہ ہے۔ قرآنی اصطلاح میں ’’خسران‘‘ کا مطلب کوئی معمولی گھاٹا نہیں بلکہ مکمل تباہی اور بربادی ہے، جو قرآن کریم میں فوز و فلاح اور رشد و ہدایت کی کامل ضد کی حیثیت سے جا بہ جا استعمال ہوئی ہے۔ ایمان کا اصل مفہوم دل و زبان سے ﷲ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی جملہ صفات کا اقرار کرنا اور اس کے تمام انبیاء کرامؑ، آسمانی کتب، ملائکہ، بعث بعد الموت اور حشر و نشر پر پختہ یقین اور ایمان رکھنے کے ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جب ایمان حقیقی کسی انسان کے قلب و روح میں اتر جائے تو ایسے پکے مومن سے اعمال صالحہ کا صادر ہونا اس کے ایمان کا لازمی تقاضا ہوتا ہے۔ کیوں کہ ﷲ تعالیٰ اور روز آخرت پر پختہ یقین ہونے کے سبب اس کے دل و دماغ میں میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک دنیا اور بھی ہے جہاں ہر انسان کو ان کے اچھے اعمال کا اچھا اور بُرے اعمال کا بُرا بدلہ ملے گا۔ جس طرح ایمان اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں، بالکل اسی طرح تواصی بالحق اور تواصی بالصبر بھی لازم و ملزوم ہیں۔ تواصی بالحق کا مطلب یہ ہے کہ ہر اس بات کا اقرار و اعلان کرنا اور ہر اس چیز کی دعوت و تلقین کرنا جو مبنی بر حق ہو۔ اسی ضمن میں جب حق بات کو لے کر ایک بندۂ مومن اسے عملاً نافذ کرنے کی سعی شروع کرتا ہے تو اسے ہر سُو باطل قوتوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس لیے کہ حق کی دعوت کو دنیا میں بالعموم برداشت نہیں کیا جاتا اور یوں حق بات کو پھیلانے اور اس کی عملی تنفیذ کے لیے اہل حق کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صبر و استقامت کا پیکر بننا پڑتا ہے۔ تواصی بالحق ایک طرف اگر انسان کی شرافت کا تقاضا ہے تو دوسری طرف یہ ان کی غیرت اور حمیت کا بھی لازمی تقاضا ہے کہ جس حق کو اس نے خود قبول کیا ہے۔ اس کا پرچار بھی کرے اور اس کی عملی تنفیذ کے لیے تن، من اور دھن کی بازی بھی لگائے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر ایک ہی وحدت کے ناقابل تقسیم پہلو اور قران کی رُو سے انسان کی اخروی نجات کا واحد راستہ ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-15760243075657947062022-12-27T03:46:00.000-08:002022-12-27T03:46:25.596-08:00حفاظت زبان<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgiJNqVha8__NW86sWr-aOWRn6VHCIwIEtIjbBUP4Oq70ayGZn75yVagV76x942a_cWveGhExapWve_C6C2upd8yqapgTtZ0DNYi_h1hKm2SOcgGaGNRVTVOTitI6Mc9eo1xA5TsLDELOf746YrzqAvEDYkxGJ2rdUW8C6EgVDay5MPMetdlwG8rFge/s2816/Zaban%20ke%20gunah%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1880" data-original-width="2816" height="268" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgiJNqVha8__NW86sWr-aOWRn6VHCIwIEtIjbBUP4Oq70ayGZn75yVagV76x942a_cWveGhExapWve_C6C2upd8yqapgTtZ0DNYi_h1hKm2SOcgGaGNRVTVOTitI6Mc9eo1xA5TsLDELOf746YrzqAvEDYkxGJ2rdUW8C6EgVDay5MPMetdlwG8rFge/w400-h268/Zaban%20ke%20gunah%203.jpg" width="400" /></a></div>ﷲ رب العالمین کی بے شمار نعمتیں ہیں اگر انسان انہیں شمار کرنا چاہے تو یہ ناممکن ہے۔ ﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم: ’’اور اگر تم ﷲ کی نعمتیں گننا چاہو تو کبھی نہ گن سکو گے بلاشبہ! ﷲ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (النحل) ﷲ کی انہیں نعمتوں میں سے ایک نعمت زبان بھی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ تو صرف اسے ہی ہو سکتا ہے جسے ﷲ نے اس سے محروم رکھا ہے، وہی جان سکتا ہے کہ وہ ﷲ کی کتنی بڑی نعمت سے محروم ہے۔ یہی زبان ہے جس سے ہم اپنے دل کی بات اور مافی الضمیر ادا کرتے ہیں۔ زبان اعضائے انسانی میں سے سب سے زیادہ بے قابو عضو ہے کیوں کہ اس کے استعمال میں ہمیں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ زبان ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے جسے شیطان انسان کے خلاف استعمال کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے اسے قابو میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ زبان کو غلط اور بُری باتوں سے بچا کر اچھے طریقے سے استعمال کرنا ہی زبان کی حفاظت کہلاتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">زبان کی حفاظت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے جو لفظ نکل گیا فرشتے اسے لکھ کر محفوظ کر لیتے ہیں جو قیامت کے دن ہمارے خلاف گواہی کے طور پر کام آئے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ’’ جب دو (فرشتے) لکھنے والے اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے سب لکھتے ہیں وہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک تیار نگراں موجود رہتا ہے۔‘‘ حضرت بلال بن حارثؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’انسان بعض اوقات ایسے الفاظ بول دیتا ہے جن سے ﷲ راضی ہو جاتا ہے جب کہ وہ اسے معمولی سمجھ رہا ہوتا ہے، اسے پتا ہی نہیں ہوتا کہ اس کا اجر و ثواب کس قدر ہے۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ معمولی سمجھ کر بول دیتا ہے جو ﷲ کی ناراضی کا باعث بنتا ہے اسے پتا ہی نہیں ہوتا کہ اس کا کتنا نقصان ہے، ﷲ تعالیٰ اس کے لیے اپنی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔‘‘ (ترمذی) ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جسم کے باقی اعضاء ہر روز صبح اس کے سامنے عاجزی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں ﷲ سے ڈر، اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ وابستہ ہیں اگر تو درست رہے گی تو ہم بھی درست رہیں گے اگر تو کج رو ہو گی تو ہم بھی کج رو ہو جائیں گے۔ (ترمذی)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgBydAbnFn71PisEm9sAt9NdvYlA8x3Oljgl5E9gLOziyC252dUNLMyhVTlpWHxH52L2rkT-4qHFt3HfIXDSyBakNnkedimlKdYZkIwjx2HBra8NNvXMwLItPxNoPbsiyXrV3f1h42t9WdQ1TWmhgeMGiCWkGi_KqF2HhToL6XEs6pzqTjKP60ZdmmU/s6000/Zaban%20ke%20gunah%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="4000" data-original-width="6000" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgBydAbnFn71PisEm9sAt9NdvYlA8x3Oljgl5E9gLOziyC252dUNLMyhVTlpWHxH52L2rkT-4qHFt3HfIXDSyBakNnkedimlKdYZkIwjx2HBra8NNvXMwLItPxNoPbsiyXrV3f1h42t9WdQ1TWmhgeMGiCWkGi_KqF2HhToL6XEs6pzqTjKP60ZdmmU/w400-h266/Zaban%20ke%20gunah%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">افضل مسلمان وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ سیدنا ابو موسیؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: اے ﷲ کے رسولﷺ! سب سے بہترین اسلام کس کا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ’’ان مسلمانوں نے فلاح پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں اور لغو باتوں سے کنارے پر رہتے ہیں۔‘‘ (سورۃ المومنون) غور فرمائیں قرآن مجید میں کام یاب ہونے والوں کی صفات میں لغو سے اعراض کرنا اور دور رہنا بھی شمار فرمایا ہے، مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنے آپ کو کسی کام میں لگا لیتے ہیں، بے مقصد زندگی نہیں گزارتے، فضول کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اگر کوئی دوسرا شخص لغو اور نکمی بات کرتا ہے تو اس کی بات کا یقین نہیں کرتے اس کی طرف سے منہ پھیر لیتے ہیں۔<br />ان کو اپنی زندگی سے فرصت ہی نہیں ملتی کے وہ ان بے کار کاموں کی طرف دھیان دیں جیسے اپنے محبوب حقیقی کی یاد سے فرصت نہ ہو وہ فضولیات کی طرف کیسے متوجہ ہو سکتا ہے۔ (مولانا مفتی محمد عاشق، زبان کی حفاظت)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ایک حدیث کا مفہوم ہے: ’’آدمی کے اسلام کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اس کے کا م کی نہیں۔،، (ترمذی) جو لوگ ﷲ پر ایمان رکھتے ہیں ان کی گفت گو ہمیشہ بہترین ہوتی ہے وہ ہمیشہ فضولیات سے احتراز کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’فضول باتوں کو چھوڑ دینا، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے۔‘‘ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے زبان پر قابو پا لیا اس کے لیے امن و سکون اور خوش خبری ہے۔ انسانی جسم میں زبان کی حیثیت ایک قائد کی سی ہے اس کی غلطی سارے جسم کی غلطی ہوتی ہے، آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: تُو ہمارے سلسلے میں ﷲ سے ڈر اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تُو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔‘‘ (سنن الترمذی)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">غبیت، چغلی، کسی کا مذاق بنانا، جھوٹی تعریف کرنا اس طرح کے بڑے گناہ اس سے صادر ہوتے ہیں بعض مرتبہ ہمارے منہ سے کوئی بات نکل جاتی ہے جس کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا اور اس کی وجہ سے انسان دوزخ میں گرتا چلا جاتا ہے۔ بسا اوقات ایک جملہ ہی جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ انسان ساری زندگی اچھا بولتا رہتا ہے مگر کبھی اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے ہے جسے ﷲ پسند نہیں کرتا اور وہ جنت سے دور ہو جاتا ہے اور وہ بات اسے جہنم میں داخل کر دیتی ہے۔ سیدنا ابُوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’بلاشبہ! (بسا اوقات) بندہ ﷲ تعالیٰ کی رضا مندی کی بات کرتا ہے اور اس کی اس کو پروا بھی نہیں ہوتی لیکن اس کے سبب سے ﷲ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرتا ہے اور بعض وقت بندہ ﷲ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی بات بولتا ہے اور اس کی پروا نہیں کرتا لیکن اس کے سبب سے وہ جہنم میں گر جاتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ابن القیمؒ فرماتے ہیں: آدمی قیامت کے دن نیکیوں کے پہاڑ لے کر آئے گا، وہ دیکھے گا کہ اس کی زبان نے وہ تمام پہاڑ ملیامیٹ کر دیے ہیں اور انسان گناہوں کے پہاڑ لے کر آئے گا اور وہ دیکھے گا کہ ﷲ کے ذکر اور اس جیسی چیزوں سے وہ گناہوں کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے ہیں۔ (الجواب الکافی) سیدنا سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص مجھے اپنے دو جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) کی اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرم گاہ) کی ضمانت دے دیں تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاری) ﷲ تعالیٰ نے انسان کو جتنی بھی نعمتیں دی ہیں ان میں سے ایک نعمت زبان ہے انسان کو ہمیشہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔ زبان سے نکلا ہوا ایک بول انسان کو زوال بھی دیتا ہے اور عروج بھی۔ انسان اپنی باتوں سے ایسے ہی پہچانا جاتا ہے جسے کہ درخت اپنے پھلوں سے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">زبان ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے ہم اپنے دل کی بات دوسروں کو سمجھاتے ہیں اسی سے کلام الٰہی پڑھتے ہیں، اگر اس کی حفاظت کی جائے تو بہت اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے تو اس سے بڑے فسادات برپا ہوتے ہیں۔ زبان کی شیریں رکھنے سے انسان بڑے مشکل کام آسانی سے کر لیتا ہے، سخت سے سخت دل کو موہ لیتا ہے۔ انسان اور حیوان کے درمیان فرق کرنے کرنے والی چیز زبان ہی ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی زبان کی حفاظت کریں، فضول اور غیر ضروری میل جول سے بچیں، نیکیوں کا شوق اپنے دل میں پیدا کریں، اپنے گناہوں پر آنسو بہائیں اور گناہوں سے سچی توبہ کریں، ﷲ پاک سے دنیا و آخرت میں عافیت و نجات کی دعا کریں اور اس کے لیے عملی کوششیں بھی جاری رکھیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ﷲ تعالیٰ ہم سب کو زبان کی حفاظت کرنے والا بنا دے۔ آمین</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اقراء بتول </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3260923744554805005.post-43037648051580111732022-12-12T00:18:00.003-08:002022-12-12T00:18:52.947-08:00اسلام کا معاشی و اقتصادی نظام<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjOwTfiiMUp4kJiIT08SzrMVW3l0AaYTFSW2b9w8XmP3sp9qqGkwElb0fSqZ5bXRt96QywO2Gc7_bG5Ul39qkNSndHVdX3mCBKgs5tj6-dnwt5r7M53HmCvhv1HaZOCzMeeehdLcKd2PeD3liZojagKb3jDRTpsnkqid7YXNBydeGa1TkaLeuwOXd-T/s1920/Islamic%20Economy%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1280" data-original-width="1920" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjOwTfiiMUp4kJiIT08SzrMVW3l0AaYTFSW2b9w8XmP3sp9qqGkwElb0fSqZ5bXRt96QywO2Gc7_bG5Ul39qkNSndHVdX3mCBKgs5tj6-dnwt5r7M53HmCvhv1HaZOCzMeeehdLcKd2PeD3liZojagKb3jDRTpsnkqid7YXNBydeGa1TkaLeuwOXd-T/w400-h266/Islamic%20Economy%203.jpg" width="400" /></a></div>اگر دین اسلام کے اوّلین دور کا جائزہ لیا جائے تو فوراً واضح ہو جائے گا کہ دین اسلام کی ترقی و سرفرازی کی اصل وجہ اسلام کا وہ معاشی و اقتصادی نظام تھا کہ جس سے پہلے اس کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اسلام سے پہلے پوری دنیا میں جہالت، خودغرضی ، مفادپر ستی، نفسانفسی اور ظلم و استحصال کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ ظالم حکمرانوں کے خزانے بھرے ہوئے تھے مگر ان کی ہوس ِ زر ختم نہیں ہوتی تھی۔ ان کی عوام کی حالت انتہائی نا گفتہ بہِ تھی۔ مگر اس کے باوجود یہ ظالم حکمران مختلف طریقوں سے عوام کا خون نچوڑتے رہتے تھے، عرب اور بیرونی دنیا میں کچلی ہوئی اور بے بس و بے کس انسانیت کی سسکیاں ہرطرف گونج رہی تھیں مگر حکمرانوں کی بے حسیِ اور خواہشات نفس کی تکمیل اپنے عروج پر تھی، یہ حکمران اپنے خزانے اور حرم بھرنے میں مگن تھے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دین اسلام کے ابتدائی دور میں ہی ان ظالم، غاصب اور لٹیرے حکمرانوں تک اللہ کا پیام پہنچایا گیا کہ وہ ظلم و استحصال کی اس روش سے باز آجائیں، اللہ تعالیٰ نے زندگی گزارنے کے اُصول متعین کر دئیے ہیں انھیں اپنالیں، ان بھٹکے ہوئے متکبر حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کے نتیجے میں ان ممالک میں لشکر لشی کی گئی۔ ان کے خزانوں سے جو ’’مال غنیمت ‘‘ حاصل ہوا اُسے بیت المال میں جمع کر لیا گیا اور ان خزانوں کو عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا گیا ۔ بیت المال میں جمع تمام خزانے، دولت اور مال غنیمت اللہ تعالیٰ کی امانت ٹھہرائے گئے۔ خلفائے راشدین انتہائی کم وظیفہ اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے کیلئے وصول کرتے تھے۔ یہ وظیفہ کسی بھی مزدور کی آ مدنی سے کم ہوتا تھا، جس کی وجہ سے خلفائے راشدین انتہائی کسمپرسی اور تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے، خلفائے راشدین کے بعد عمر بن عبدالعزیز نے بھی یہی زندگی اور طرز حکمرانی اپنایا۔ آپ نے بھی خزانوں کو مسلمانوں کی اخلاقی، معاشی اور اقتصادی حالت بہتر بنانے کیلئے خرچ کیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgxEKqwQWPDVNUSmMOmHJk3wVlnY1n8s1EuV7tgzPoYJp4Vip-07h_ZO0M7AkGziTJ4BqCmSeYYenS0tXuEjTSPDZHRLhfEZRbwBpzGQ8HdtAKnYEtPsgthPkzojGNmSuMd-sWK2ycXa8v03r7OjtnH6QX0IgGxeJMi_v3zTaX_D7rN0xo1dvlS1cfh/s1920/Islamic%20Economy%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1280" data-original-width="1920" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgxEKqwQWPDVNUSmMOmHJk3wVlnY1n8s1EuV7tgzPoYJp4Vip-07h_ZO0M7AkGziTJ4BqCmSeYYenS0tXuEjTSPDZHRLhfEZRbwBpzGQ8HdtAKnYEtPsgthPkzojGNmSuMd-sWK2ycXa8v03r7OjtnH6QX0IgGxeJMi_v3zTaX_D7rN0xo1dvlS1cfh/w400-h266/Islamic%20Economy%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">غیر مسلم اقوام کی تر قی کی وجوہات<br />اسلام کے عروج کا دور تقریباً سات سو سال رہا، غیر مسلم اقوام نے اسلام کی ترقی اور عروج کا جائزہ لیا، تحقیق کی اور اسلام کے سنہری اُصولوں کو اپنا کر ایک نیا سفر شروع کیا۔ مسلمان اسلام کی سمندر جیسی وسعت رکھنے والی تعلیمات کو فراموش کر کے تنگ نظری کے کنوئیں میں قید ہو گئے اور غیر مسلم نے اسلام کے بنیادی اُصولوں کو اپنا کر جدوجہد شروع کی، مسلمان زوال کی انتہا کی جانب اور غیر مسلم عروج کی جانب گا مزن ہو گئے۔ انھوں نے اسلامی فلاحی ریاست کا تصور اپنا لیا۔ غیر اقوام سے خزانے حاصل کرنے کی تدبیروں کو اپنایا، ان ممالک نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول اور اس میں دسترس حاصل کر نے کیلئے سفر شروع کیا، روائتی اسلحہ کے تصور سے نکل کر جدید اسلحہ بنایا ، کمزور ممالک کو مغلوب کیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہ ممالک اسلام کے ابتدائی دور کے تصور کو اپنا کر ترقی کی جانب رواں دواں ہیں۔ چونکہ موجودہ وقت کو ’’ مہذب دور ‘‘ کہا جاتا ہے، اس لئے ترقی پذیر اور پسماندہ اقوام سے ’’مال غنیمت ‘‘ حاصل کرنے کے جدید طریقے اپنا لئے گئے ہیں، ایک بڑا طریقہ ان ممالک کو اسلحہ اور سامان تعیشات کی ایکسپورٹ ہے جس کی بدولت ان ممالک سے بھاری مقدار میں زرِ مبادلہ حاصل کیا جاتا ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس دولت کو وہ اپنے ملک کے عوام ، تعلیم ، جدید ریسرچ، طبی سہولتوں اور ضروریات ِ زندگی کیلئے خرچ کر رہے ہیں، پاکستان جیسے ممالک اپنی ساری دولت ان ممالک کو دیکر لگژری گاڑیاں، انھیں چلانے کیلئے پٹرول اور دوسرا سامان تعیشات خرید رہے ہیں۔ غیر مسلم ممالک اپنی افواج کو بھی اپنی تجارتی کامیابیوں اور ’’مال غنیمت‘‘ حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اگر صرف پچھلے پچاس سالوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ حقائق سامنے آ تے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، مادی ترقی اور معیاری زندگی بلند کرنے کا جو فلسفہ پھیلایا گیا، اُس نے پاکستان جیسے تمام ممالک کو تنزلی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیا ہے۔ پاکستانی عوام کو ایک ایسے طرز زندگی کا عادی بنا دیا گیا ہے، جس کے ہم متحمل ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ اب موبائیل فونز، ائیرکنڈیشنڈ ، گاڑیاں، لگژری گاڑی، بڑے بڑے بنگلے ہوٹلنگ اور سامان تعیشات کی درآمد کیلئے تقریبا ً باون) 52 ( ارب ڈالر سالانہ خرچ کیا جا رہا ہے، یہ رقم پاکستانی کرنسی میں ستانوے کھرب ، چھیترارب (76) بنتی ہے۔ یہ ہے دوسرے ممالک سے دولت ہتھیانے کا ’’جدید طریقہ‘‘ یہ صرف ایک ملک کی دولت ہے جو بیرونِ ممالک جاتی ہے رقم ہتھیانے والے ممالک یہ دولت اپنے ملک وقوم کی خوشحالی پر بھی خرچ کرتے ہیں، اپنی افواج اور اداروں پر بھی۔ یہ ممالک اپنی افواج کو اپنی بقاء کیلئے نہیں بلکہ اپنی تجارتی سبقت اور معاشی و اقتصادی ترقی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">امریکہ اور یورپ نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے مختلف قسم کے اتحاد قا ئم کر رکھے ہیں، جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی دوسرا ملک ان کے تجارتی، معاشی اور اقتصادی مفادات میں آڑے آنے کوشش کر رہا ہے وہاں فوراً ان ممالک کی افواج حرکت میں آجاتی ہے۔ ان ممالک کی افواج اپنے ملک کی بقاء کیلئے نہیں بلکہ اپنی ملک وقوم کی ترقی میں معاون ثابت ہو رہی ہیں، ان ممالک کا اپنا دفاع جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے نا قابل تسخیر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے آلہ کار بھارت اور غاصب اسرائیل جیسے ممالک کے ذریعے پاکستان اور عرب ممالک کو اپنی بقاء کی جنگ پر مجبور کر رکھا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بجٹ کا بہت بڑا حصہ ہمارے دفاع کیلئے خرچ ہو رہا ہے مگر اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔ اگر ہم آج کے ترقی یا فتہ ممالک کا جائزہ لیں تو فوراً یہ حقیقت سا منے آ جاتی ہے کہ ان تمام ممالک نے اسلام کے ابتدائی دور کے اُصولوں کو اپنایا ہوا ہے۔ جبکہ ریاست مدینہ کے لشکر اپنے دفاع کیلئے نہیں بلکہ ظالم اور غاصب حکومتوں کے خلاف برسرپیکار تھے، یہ لشکر اپنے تجارتی قافلوں کو تحفظ دیتے تھے، یہ مفتوح علاقوں میں امن قائم رکھنے کیلئے ریاست کی معا ونت کرتے تھے، جو مال غنیمت اسلامی بیت المال میں جمع کرواتے تھے۔ امریکہ اور یورپ نے اسلامی ممالک کو اپنی ہی بقاء کی جنگ لڑنے پر مجبور کیا ہوا ہے، ان ممالک کی اسلامی ممالک کے خلاف سازشیں فوراً سامنے آ جاتی ہیں مگر دُکھ کا مقام یہ ہے کہ مسلمان ممالک ان کا مقابلہ کرنے کا ادراک اور فہم ہی نہیں رکھتے ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اصل جرم 98 کھرب روپے کی امپورٹ ہے<br />پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے یہاں ’’علمائے کرام‘‘ کی بہتات ہے۔ یہ علماء کرام دین اسلام کی اپنے اپنے فقہ کے مطابق تشریح کرتے رہتے ہیں، مگر ان کی زیادہ تر تعلیمات ’’ وضو کا طریقہ‘‘ بتانے تک محدود ہیں، اسلام کی اُن تعلیمات اور جدو جہد کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اسلام پھیلا اور مسلمانوں کی معاشی واقتصادی حالت کو بہتر بنایا گیا۔ زکوٰة کو تمام معاشی مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے اور زکوٰة کو معاشی واقتصادی توازن کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن اس حقیقت کو فراموش کر دیا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں اس قدر مال غنیمت حاصل ہوتا تھا کہ کوئی مسلما ن نادار رہ ہی نہیں گیا۔ بلکہ حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانے میں تو کوئی زکوٰة لینے والا ملتا ہی نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ کے دور کے بعد بیت المال کو مسلمانوں کی مالی و معاشی حا لت بہتر بنانے کیلئے خرچ کیا جاتا تھا ، بہت ہی کم افراد ایسے تھے کہ جو زکوٰة کے مستحق تھے، وہ بھی بیمار اور اپاہج وغیرہ ہوتے تھے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اگر ’’علماء کرام‘‘ حکومت کی راہنمائی کرتے اور اسلام کا یہ پہلو سامنے لاتے تو ممکن تھا کہ حکمران وہ پالیسیاں بناتے کہ اسقدر امپورٹ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ فضول چیزیں منگوانے پر پا بندی عائد ہوتی ۔ ہر سال کرپشن زدہ رقم کے بیس یا تیس ارب روپے باہر جانے کا اتنا نقصان نہیں ہوتا کہ جتنا 98 کھرب روپے کی امپورٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ آج بھی آدھی رقم صرف سامان تعیشات اور پیٹرول پر خرچ کی جاتی ہے۔ حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ ایسی پالیسیاں بناتے کہ ہمارا زرمبادلہ کم از کم باہر جاتا۔ خام مال استعمال کرنے اور ضروریات زندگی کی مصنوعات تیار کرنے کیلئے ملک میں ہی کارخانے اور فیکٹریاں لگائی جاتیں۔ ایک ایک گھر میں گاڑیوں کی بہتات نہ ہوتی۔ ایسی ہی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں کرپشن میں بھی اضافہ ہوا۔ مہنگی ترین گاڑیاں خریدنے، بڑ ے بڑے محل بنانے اور پر تعیش سامان حاصل کرنے کی دوڑ شامل ہے۔ ان چیزوں کے حصول کیلئے نا جائز مال بنایا اور کمایا جاتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">علماء کرام نے زکوٰة کی اہمیت پر جو زور دیا ہے وہ ’’مال غنیمت ‘‘ حاصل کرنے پر نہیں دیا، بلکہ قیام پا کستان سے لیکر آج تک غیر اقوام ہمارے ملک سے ’’ مال غنیمت ‘‘ لے جا رہی ہیں ۔ عوام میں بھی شعور پیدا ہونا چاہیے اور انھیں اسلام کی تعلیمات اور اسلام کے ابتدائی دور کے متعلق آ گہی حاصل ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کی ترقی کیلئے دین اسلام کو اور اسلام کے ابتدائی دور کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔<br /> اسلامی ریاست کے چار ستون<br />(۱) قرآن و حدیث اور سنت<br />(۲) آ ئمہ کرام ، صوفیا ء کرام اور علماء حق کی تعلیما ت اور دین کی تشریح<br />(۳) صالح اور با کردار مسلمان حکمران<br />(۴) عدلیہ<br />ہمارے تمام تر مسائل کی اصل وجہ یہ کہ قرآ نی تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھایا نہیں گیا، اسلام کو کلمہ توحید ، نماز قائم کرنا ، روزے رکھنا ، زکوٰة دینا اور حج ادا کرنا تک محدود کر دیا گیا ہے اور ان فرائض پر عمل کرنا ہی دین سمجھا گیا ہے۔جبکہ ان فرائض پر عمل کئے بغیر کوئی فرد مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ بطور اُمتی اصل معا ملات اس کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث اور سنت کے ذریعے ہر فرد کی ذ مہ داریوں کا تعین کر دیا گیا ہے، اور دین اسلام میں فرائض کے بعد سماجی اور معاشی خوشحال زندگی کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اب بھی وقت ہے کہ ملکی معاشی ، اقتصادی اور تجارتی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ انتہائی ضرورت کی اشیاء کے علاوہ ہر قسم کی امپورٹ بند کر دی جائے، موجودہ پا لیسیوں کی وجہ سے زر مبادلہ تو باہر کے ممالک میں جا ہی رہا ہے۔ معاشی اور سماجی عدم توازن میں بھی بے حد اضافہ ہو چکا ہے، لوگ کرپشن زدہ رقومات سے مہنگا سامان تعیشات استعمال کر کے معاشرے کے ’’ معزز ترین‘‘ افراد بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ دین اسلام کے اُصولوں کے متضاد ہے۔ قرآن وحدیث اور سنت کے ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے کہ جن میں تمام تر انسانیت کیلئے دائمی خوشیاں، خو شحالی ، امن اور سکون کا پیام ہے۔ جس میں معاشرتی اور طبقاتی تفریق نہیں ہے۔ جہاں جہالت نہیں بلکہ علم کی روشنی سے سارا جہاں منور ہو رہا ہے، ہر قسم کی ترقی کیلئے اسلامی ریاست کے چاروں ستونوں کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ !!!</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">امپورٹ ،ایکسپورٹ کے کا میاب اُصول‘‘<br />حضور اکرم ﷺ ایک کا میاب تاجر بھی تھے ۔ آ پﷺ نے تجارت کے سنہری اُصول اپنائے۔ آپﷺ مکہ سے سامان تجارت لیکر باہر علاقوں میں جاتے تھے، انھیں فروخت کر کے جو رقم حاصل ہوتی اس سے وہ سامان تجارت خریدا جاتا جس کی مکہ میں ضرورت ہوتی تھی ۔ صحابہ کرام ؓ نے بھی یہی اُصول اپنایا۔ ان اُصولوں پر عمل کر کے دوطرفہ منافع بھی حاصل ہوتا ہے اور ’’ زر مبادلہ‘‘ بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اگر زندگی کے ہر پہلو میں آ پ ﷺ کی سنت پر عمل کیا جائے تو تمام مشکلات اور پریشا نیاں ختم ہو جائیں گی، زندگیوں میں برکت بھی شامل ہو گی۔ مگر دُکھ کا مقام یہ ہے کہ موجودہ دور کے علماء کرام نے اسلام کو انتہائی محدود کر دیا ہے ۔ قرآن حکیم کی تلاوت اور سنت مبارکہ کے کچھ پہلوؤں پر عمل کرنا ہی صرف اسلام قرار دیا گیا ہے، مگر دین اسلام کے تمام پہلوؤں کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے انسانیت کو دوام حاصل ہوا، لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی آئی اور انھیں ہرقسم کا تحفظ حاصل ہوا، اور ہر فرد کو کا میاب زندگی گزارنے کے اُصول بتائے گئے ہیں ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ہر مسلمان حکمران پر ریاست ِ مدینہ کے اُ صولوں پر عمل کرنا لازم ہے<br />اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو بشر ِکامل بنایا ، آ پ ؐ قرآن حکیم کی زندہ تفسیر وتصویر ہیں۔ آپ ؐ کی زندگی کے تمام پہلو یعنی سنت پر عمل کرنا ہی دین ہے۔ اسلام کسی فرد کا وضح کردہ نظام نہیں بلکہ مالک حقیقی کا اُتارا ہو ا نظام ہے۔ تمام مسلمان حکمرانوں پر ریاست مدینہ کے تمام اصولوں پر عمل کرنا سنت اور فرض بھی ہے۔ وگرنہ حکمران اپنے اعمال کیلئے اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہونگے۔ ریاست مدینہ میں مال غنیمت حاصل کر کے ملکی خزانوں یعنی بیت المال میں جمع کروایا گیا اور انھیں عوام پر خرچ کیا گیا ۔ ملکی خزانوں کو ایکسپورٹ کے ذریعے غیر اقوام کو منتقل نہیں کیا ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ظفر سجاد </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0